سفارت خانہ کی پالیسی میں خوش آئند تبدیلی مبارک

hussen-khan

حسین خان ٹوکیو


سفارت خانہ نے جیتنے والی پاکستان ایسوسی ایشن کو ریکیگنائیز کرلیا
حسین خان  ۔  ٹوکیو
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے  اصولوں سے
کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
الیکشن کمیشن نے 8  اگست کی شام میں ٹوکیو کے ایک ہال میں تقریب ِ حلف برداری منائی۔اس میں ٹوکیو کے علاوہ یوکوہاما، سائتاما،توچیگی، اباراگی گُمّا، نیگاتا،ناگانو اور دوسرے بہت سے دور دراز پریفیکچر کے پاکستانی اور ان کے منتخب نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ان میں قابل ِذکرپاکستان سے آئے ہوئے مہمان توقیر ناصر اور سفارت خانہ کے تین نمائندوں کی شرکت تھی۔سفیرِ پاکستان بذاتِ خود شریک نہیں ہوسکے، اس کا سب پاکستانیوں کا بڑا افسوس ہوا۔
سفارت خانہ کے یہ تینوں نمائندے سفیر کی اجازت کے بغیر محض اپنی مرضی سے انفرادی حیثیت میں کسی شادی  کی تقریب میں شرکت کی نیت سے نہیں آئے تھے۔یہ تینوں سفیرہز ایکسلنسی نور محمد جادمانی صاحب کی اجازت بلکہ ہدایت کے تحت شریک ہوئے تھے۔ سفارت خانہ کی طرف سے اس طرح سرکاری طور پر شریک ہونے کا مطلب یہ تھا کہ سفارت خانہ نے الیکشن کے سارے عمل کی، الیکشن کمیشن کے طریقِ کار اور فیصلوں کی اور اس کی طرف سے اعلان کیے گئے نتائج کی تصدیق و توثیق کی ہے اور اسی لیے اپنے تین،تین نمائندے بھیج کر جیتے والے پینل کی جیت کو صحیح سمجھنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اگر سفارت خانہ اس سارے الیکشن کے Process کو، الیکشن کمیشن کے طریقِ کار، اس کے فیصلے اور اس کے نتائج کودھاندھلی پر مبنی یا بقول شہزاد بہلم گروپ کے ایک متفقہ قرارداد کے دھوکہ دہی سمجھتا تو سفارت خانہ کا ایک بھی آدمی اس میں شریک نہیں ہوتا۔
سفارت خانہ کی پالیسی میں یہ ایک عظیم تبدیلی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سفارت خانہ  نے اب تک کی کمیو نٹی میں انتشار پیدا کرنے والی ’غیر جانبداری‘ کی پالیسی ترک کردی ہے۔ صبح کا بھولا شام تک بھی گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ کمیونٹی کا ہر  خیرخواہ،سمجھدار اور سنجیدہ طبقہ  سفارت خانہ کی پالیسی میں اس  خوش آئند تبدیلی کو خوش آمدید کہے گا۔ہزاروں پاکستانیوں نے جوق در جوق اس الیکشن Process میں حصہ لے کر جاپان کی پاکستان کمیونٹی  کی تاریخ میں ایک نئے باب اور ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا ہے۔بھلا سفارت خانہ اسے کیسے فراموش کرسکتا تھا۔ ایک بدیہی حقیقت اپنے آپ کو منواکر ہی رہتی ہے۔ اگر سورج نکل چکا ہو تو کون اس رَٹ کو مانے گا کہ ابھی اندھیرا ہے۔ جاپان کی پاکستان کمیونٹی  کے افق پر جمہوریت کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ اب سفارت خانہ کو بھی کمیونٹی کے اندر جمہوریت کی یہ چمک نظر آچکی ہے۔اور کمیونٹی اس کی شکر گزار ہے کہ سفارت خانہ نے سرکاری طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے۔
سفارت خانہ کی پالیسی میں یہ عظیم الشّان تبدیلی کمیونٹی میں انتشار کوختم کرے گی۔کوئی منچلا اگر اپنی ہاری ہوئی پاکستان ایسو سی ایشن  کی Recognition کی بھیک مانگنے آئے گا تو سفارت خانہ کے پاس اس کو بھیک دینے سے انکار کی ایک وجہ جواز ہوگی  کہ ہم تو اسی ایسوسی ایشن کو تسلیم کرسکتے ہیں جو ہزاروںپاکستانیوں کی ووٹنگ کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہو۔دھاندھلی کی اگر کوئی شکایت تھی تو تینوں پینلوں کے متحدہ حلفیہ فیصلہ  کے تحت 3 ماہ کے وقفہ کے بعد 3 پریفیکچر میں دوبارہ انتخابات کیے گئے۔ اس میں سارے امیدواروں کے ووٹروں نے حصہ لیا۔اگر ہارنے والے جیت گئے ہوتے تو وہ  بھی ان نتائج کو مان لیتے اور اپنے جیتنے کو  الیکشن کمیشن کی دھوکہ دہی نہیںکہتے۔چونکہ ہار گئے ہیں ،اس لیے الیکشن کمیشن پر بغیر کسی ثبوت کے دھوکہ دہی کا الزام چسپاں کردیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس  الیکشن کمیشن کے چیرمین کی صداقت پر انھیں 3  ماہ قبل اعتماد تھا ، اب اسی کو آپ دھوکہ دہی میں ملوث قرار دے رہے ہو۔اب وہی چیرمین جس کی حقا نیت اور صداقت پر آپ کو 3  ماہ قبل بڑا ناز تھا اور ان کی بزرگی کے گیت گاتے تھے، اب وہی چیرمین کہہ رہا ہے کہ تم ہار گئے ہو تو اب اس کی بات کیوں نہیں مانتے؟ وہ  چیرمین گویا آپ کے لیے اسی وقت تک بزرگ تھے جب تک کہ ان کی کوئی بات آپ کے مفاد میں جارہی تھی اور جیسے ہی اسی بزرگ نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو آپ کے مفاد کے خلاف پڑتی ہے،تو اب اس بزرگ اور اس کے ساتھیوں پر دھوکہ دہی کا الزام لگانے پر اتر آئے ہو۔جبکہ اس زبانی کلامی الزام کی صداقت کا تمہارے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔
7     شروع شروع میں ہز ایکسلنسی نور محمد جادمانی صاحب کمیونٹی کے اتحاد کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے،  سارے پاکستانیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھناایک اچھا اور نیک جذبہ ہے۔ سفیر صاحب کی یہ نیک نیتی قابلِ ستائش بھی ہے۔ انفرادی سطح پر سفارت خانہ ہر پاکستانی کے ساتھ یکساں سلوک کرے اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہے ۔ الحمدُ للّٰہ پاسپورٹ  بنانے والا موجودہ اسٹاف اور ان کے افسر مروان صاحب سے کسی پاکستانی کو کوئی شکایت نہیں ہے ۔ یہ سیکشن سب پاکستانیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے اور سب اس کے مساویانہ سلوک سے بہت خوش ہیں۔ لیکن انفرادی معاملات میں جو پالیسی صحیح ہے وہ اجتماعی معاملات میں غلط ہی نہیں بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔ایک ہی لاٹھی سے سارے بیلوں کو ہانکا نہیں جاسکتا۔ ایک ہی دوا کسی کے لیے تریاق ثابت ہوتی ہے تو کسی اور کے لیے زہر۔الیکشن جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں کو ایک ہی پالیسی کا ہدف بنانا،انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ انفرادی معاملات میں غیر جانبداری ایک اچھی پالیسی ہے لیکن کمیونٹی کے اجتماعی معاملات میں یہی پالیسی سُمَِّ قاتل  ہے۔الیکشن جیتنے والے گروپ کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سفارت خانہ ہارنے والے گروپ کو بھی تسلیم کر لے اور 5 آدمیوں کی ایسو سی ایشن کو بھی تسلیم کرلے کہ ہم تو غیر جانبدار ہیں اور گدھے کو بھی، گھوڑے کو بھی اور اونٹ کو بھی سب کو ایک ہی نظر سے دیکھیں گے اور سب کو ایک ہی گھاس کھلائیں گے تو یہ پالیسی کمیونٹی میں اتحاد کے بجائے انتشار کے بیج بونے کے مترادف ہوگی۔ اتحاد کی دعائیں کرنے والے سفیر صاحب کی نیک نیتی سے ہم یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ اپنی سادگی میں نادانستہ انتشار کے بیج بونے والی پالیسی کو جاری رکھیں گے۔
ہمارا اس وقت پہلامطالبہ یہ ہے کہ سفارت خانہ ہارے ہوئے لوگوں کی پاکستان ایسوسی ایشن کو تسلیم نہیں کرے۔کسی حکومتی مہمان یا خود سفارت خانہ کے کسی افسر کو ان کے کسی بھی جلسہ میں شرکت کی اجازت نہ دے۔ انہیں سفارت خانہ کے اہم فنکشن کے خصوصی دعوت نامے جاری نہ کرے۔  جیتنے والی ٹیم کی پاکستان ایسو سی ایشن کو جاپان کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر خصوصی مراعات دے۔ اس طرح کے سب اقدامات کے نتیجہ میں پاکستان کمیونٹی میں تفرقہ پیدا کرنے والوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں گی اور ان کے حمایتی پاکستانی غیر نمائندہ ایسوسی ایشن سے ٹوٹ ٹوٹ کر الیکشن جیتنے والی واحد نمائندہ ایسو سی ایشن کی طرف اُدھر سے ٹوٹ ٹوٹ کر آئیں گے،اس طرح سارے پاکستانی آہستہ آہستہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے جائیں گے اور یہی ایک طریقہ ایسا ہے جس سے پاکستانیوں کو تفرقہ اور انتشار سے بچاکر متّحد اور متفق کیا جاسکتا ہے اور ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکتا ہے۔
پہلے تو کمیو نٹی چھوٹی بھی تھی۔میڈیا بھی نہیں تھا۔ بڑے پیمانہ پر الیکشن کرواکے ہزاروں پاکستانیوں کا تعاون بھی حاصل نہیں تھا۔اس چھوٹی کمیونٹی نے بھی ان ہتھیاروں کے بغیر ہی اپنے سارے مطالبات منوا لیے تھے۔ اس وقت تو میڈیا بھی ہے۔پاکستانیوں کے تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے اور پورے جاپان میں الیکشن میں دلچسپی نے پورے جاپان کے اندر پاکستانیوں کی کمیونٹی کے معاملات میں بیداری بہت بڑھ گئی ہے۔ کہیں بھی کوئی اہم میٹنگ بلائی جائے تو دور دور سے مختلف پریفیکچرز سے کئی کئی گاڑیوں اور بسوں میں بھر بھر کر پاکستانی دوڑے دوڑے چلے آتے ہیں۔ ان سب ہتھیاروں کی وجہ سے کمیونٹی کی عوامی طاقت ایک ایٹمی طاقت جیسی بن گئی ہے۔ اس عوامی ایٹمی طاقت کو سفارتخانہ کمیونٹی کے ساتھ پیار محبت بڑھانے اور اس میں اتحاد و اتفاق کی فضاء پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے تو کمیونٹی سفارت خانہ کی شکر گذار ہوگی۔
cj@ourquran.com

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.