ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری (ساتویں قسط)

حسین خاں  ۔  ٹوکیو
ٹویوٹا سودی قرضے بھی لیتی ہے لیکن یہ کبھی بھی ایک ’مقروض‘کمپنی  نہیںرہی
میری حمایت میں عبدالرحمٰن صدیقی صاحب کا یہ مشورہ ایک نیٹ پر چھپا ہے کہ کسی ایک آدمی کے سوال کے جواب میں پورا ایک مضمون لکھ ڈالنا مناسب نہیں ہے ، اس کے نتیجہ میں پہلے لکھی ہوئی باتیں دوبارہ دہرائی جاتی ہیں۔ان کا کہنا ہے :
’’ ایک شخص کو مطمئن کرنے کے لئے پورا مضمون لکھنا مناسب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔معترض کو سمجھانے کی کوشش اس طرح کی گئی ہے جیسے ایک استاد کسی ناسمجھ ،،طالبعلم کو سمجھا رہا ہو ۔حسین خان ےہ کےوں نہیں سمجھتے کہ اسطرح وہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ایک شخص کو مطمئن کرنے کے لےے پورا مضمون لکھنا اور ایک ہی بات کو جو پہلے لکھی جاچکی ہے بار بار دہرانا ضروری تو نہیں۔
انٹر نیٹ اور ای میل کا اسطرح استعمال فضول خرچی معلوم ہوتا ہے ۔ےہ بھی سمجھنا چاہےے کہ اتنے لمبے لمبے مباحثے اور ایک بات کو الٹ پلٹ کر کے لکھنے سے لوگ پڑھتے بھی نہیں ویسے بھی معاشےات ایک خشک مضمون ہے سب کی سمجھ میں نہیں آتا ۔خان صاحب تو ماشا ء للہ ایم اے معاشےات ہیں۔‘‘
اس مشورہ کے پہلے حصہ کے بارے میں عرض یہ ہے کہ کسی ایک آدمی کا سوال محض اُس ایک آدمی کا نہیں ہوتا ہوتا بلکہ اس طرح کا سوال یا اعتراض کرنے والے سینکڑوں اور قارئین بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہر سوال کا جواب صرف ایک آدمی کی خاطر نہیں ہوتا بلکہ سینکڑوں دوسرے قارئین کے لیے بھی ہوتا ہے۔ سوال یا اعتراض سے خود لکھنے والے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی تحریر میں کونسا پہلو ابھی تشنہ رہ گیا تھا جس کی مزید تشریح کی ضرورت ہے۔ اگر سوال کرنے والا کج بحثی پر اُتر نہ آئے بلکہ بات کو بہتر طور پر سمجھنے اور جو پہلو تشنہ  رہ گیا ہو اس کو مزید اجاگر کرنے کے لیے ہو تو وہ میری بھی اور بہت سارے قارئین کی خدمت کررہا ہے کہ اپنے سوال کے ذریعہ تحریر کے کسی گنجلک پہلو کو مزید واضح اور اجاگر کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔ اس طرح سنجیدہ سوال کرنے والا اور اس کا سنجیدگی سے وضاحت کرنے والا دونوں ہی قارئین کی خدمت کررہے ہوتے ہیں۔
اب رہا اس مشورہ کا دوسرا حصہ کہ اس سے ایک ہی بات کو دہرایا جاتا ہے تو یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ جو باتیں پہلے لکھی جاچکی ہیں ،اُنہی کو دہرادیا جائے تو اس طرح سوال کا کوئی جواب نہیں بنتا ۔جواب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ
Mاب تک کی لکھی ہوئی باتوں سے ہٹ کر کسی نئے پہلو کو سامنے لایا جائے یا اسی بات کے ثبوت میں کوئی نیا مواد پیش کیا جائے، جس سے معترض کی تشفی ہوسکے۔جو شخص عقلمند کو اشارہ کافی ہے کے بمصداق ساری بات کو پچھلی تحریر ہی کی بنیاد پر اچھی طرح سمجھ بیٹھا ہو اس کو تو مزید تشریح بظاہر پرانی بات کو دہرانے والی لگتی ہوگی ،لیکن فی الحقیقت نئی تشریح میں کچھ نہ کچھ نیا مواد یا نئے زاویے ہوتے ہیں ۔ پورے کا پورا مضمون ہی اگر ایک سوال یا اعتراض کے جواب میں سامنے آجائے تو اس کا مطلب یہ کہ نیا مواد یا نئے زاویے اتنے زیادہ پیش کیے گئے ہیں کہ ایک پورا نیا مضمون بن گیا
ہے۔ مرحوم مولانا امین احسن اصلاحی ؒفرمایا کرتے تھے کہ
اِک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھ
ایک ہی موضوع پر لوگ موٹی موٹی کتابیں لکھتے ہیں۔ اس کا مطلب نہیں ہوتا کہ انھوں نے ایک ہی بات کو بار بار دہرا  دہرا کر اپنی کتاب کو موٹا کردیا ہو۔ نیا مواد اور نئے پہلو اورنئے زاویے جب تک سامنے نہ لائے جائیں،ایک ہی موضوع پر کوئی کتاب بھی موٹی نہیں ہوسکتی ۔ میں نے بھی اب تک ٹویوٹا کی بلاسودی سرمایہ کاری کے موضوع پر 7 قسطیں لکھ ڈالی ہیں۔ ہر قسط میں پرانی باتوں کا ذکر تو آتا ہے لیکن اس بات کو نئے مواد یا نئے زاویے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور جب تک مجھے اس سلسلہ میں کوئی نہ کوئی نیا مواد ملتا رہے گا ، انشا ء اللہ مزید نئی نئی قسطوں میں اس کو پیش کرتا رہوں گا۔ اس پرآپ پرانی باتوں کو دہرانے کا الزام چسپاں نہیں کرسکتے۔
میں ٹویوٹا کے دعوت نامہ پر 4  اگست کو ان کے ٹوکیو کے صدر دفتر گیا تھا۔ٹو یو ٹا کو اپنے سہ۔ماہی کاروباری نتائج کا اعلان کرنا تھا۔ کوئی 200 سے زائدحصص کی فروخت کا کام کرنےوالی جاپانی اور غیرملکی کمپنیوں کے آٹوموبائیل کے خصوصی تجزیہ نگار اور اخباری رپورٹر آئے ہوئے تھے۔پہلے سے اعلان کیے گئے پروگرام کے مطابق یہ میٹنگ آدھے گھنٹے میں ختم کردی گئی۔ اس کے بعد میں نے ٹویوٹا کے متعلقہ افراد سے ملاقاتوں کی کوشش شروع کی۔ٹویوٹا کے مختلف متعلقہ افراد سے میری چارعلیحدہ علیحدہ طویل ملاقاتیں ہوئیں۔بعض افراد میرے سوالوں کا جواب نہیں دے سکے تو ناگویا کے ہیڈ آفس کے اکاؤنٹ  کے شعبہ سے خصوصی طور پر ایک دن کے لیے ٹوکیو آئے ہوے  ایک بندے کو گھسیٹ کر لائے تاکہ وہ میری باتوں کا جواب دے سکے۔ خود ٹویوٹا کے آدمیوں کے ذہن میں بھی معترض کے جس سوال کا میں نے پچھلی قسط میں جواب دیا ہے، اس سے ملتا جلتا سوال تھا اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ٹویوٹا تو سودی قرضے بھی لیتی ہے ،آپ اُسے کیسے بلاسودی سرمایہ کاری سے لے جاکر ملارہے ہو؟ میں نے اپنے دلائل اور اپنی تحقیق کے نتائج انھیں بتائے تو وہ میری رائے سے متفق ہوئے،میرے نقطہ نظر کے قائل ہوکر بڑے خوش ہوئے اورمجھ سے ہر
تعاون کی پیشکش کی۔اور فوری طور پر ٹویوٹا کی تاریخ پرچند نایاب کتابوں کا تحفہ بھی دیا۔واپسی پر جب تک میں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا، دروازے پر کھڑے بائی ،بائی کے ہاتھ ہلاتے رہے۔ اس لیے اس دفعہ بھی اور اگلی چند قسطوں میں بھی آپ اسی سوال کے جواب کے نئے پہلوؤںکو انشاء اللہ دیکھیں گے، جو میں نے ٹویوٹا والوں کو بھی بتائے تھے۔
میرے جواب کی بنیادجو میں نے ٹویوٹا والوں کو بتائی ٹویوٹا کی گذشتہ 10 سالو ں کی بیلنس شیٹوں کی میرے خصوصی تجزیہ پر مشمل تھی۔ میں نے ٹویوٹا کے جس بندے سے بھی بات کی اس کو میرے تجزیہ والے پہلو کی خبر نہیں تھی ، حتّٰی کہ ناگویا ہیڈ آفس سے آئے ہوئے اکاؤنٹ والے بندے کو بھی۔ البتّہ میرے تجزیہ سے متفق ہونے کے بعد اس نے ایک ترکیب یہ بتائی کہ میں ٹویوٹا گروپ کے بجائے ٹویوٹاکی صرف گاڑی سازی اور اس کے فروخت کا کام کرنے والی جوٹویوٹا کا اصل کام ہے صرف اس ایک (Tandoku)کمپنی کی بیلنس شیٹ کا تجزیہ کروں تو میری دلیل اور زیادہ مستحکم ہوجائے گی۔اس اکاؤنٹ والے بندے نے بتایا کہ ٹویوٹا گروپ کی مالیاتی خدماتinancial Services والی کمپنی کو علیحدہ کردوں ،جو بنک جیسا کاروبار کرتی ہے تو میرا بلاسودی سرمایہ کاری کا دعویٰ اور زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔
ہرموٹر کار کمپنی اپنے اخراجات اور ہرماہ اپنے ہزاروں افراد پر مشتمل اسٹاف کو تنخواہیں دینے کے لیے کچھ نہ کچھ نقد رقم اپنی بنکوں میں بطور ڈپازٹ رکھنے پر مجبور ہے۔اس پر اس کو بنکوں کی طرف سے سود ملتا ہے ۔مزید یہ کہ یہ بنکوں سے یا اپنے تمسکات کی فروخت سے سستے نرخ پر سودی قرضے لے کر زیادہ سودی نرخ پر ماہوار اقساط کی ادائیگی کی شکل میں نئی گاڑی خریدنے والے گاہکوں کو بالعموم 5 ۔سالہ سودی قرضے دیتی ہے۔اس طرح کی مختلف کارروایئوں کے سبب ہر موٹر کار کمپنی کے آمدنی اور خرچ کے گوشوارہ میں سودی آمدنی اور سودی ادائیگی کے اعداد و شمار ہوتے ہیں۔ اگر کسی کمپنی کی سودی ادائیگیاں زیادہ ہوں اور سودی آمدنی کم ہوتو اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ’مقروض‘ کمپنی ہے۔  اس کمپنی نے اتنے زیادہ سودی قرضے لیے ہوئے ہیں کہ اسے سود زیادہ دینا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس کا اُلٹا ہو یعنی سودی آمدنی زیادہ اور سودی ادائیگی کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کمپنی ایک ’مقروض‘ کمپنی نہیں ہے بلکہ الٹا ایک قرض خواہ یعنی قرض لینے والی نہیں بلکہ قرض دینے والی کمپنی ہے ۔یعنی مثلاً اگر ایک ملین ڈالر کا سودی قرضہ لیا ہوا ہے تویہ الٹا زیادہ سودی شرح پر کسی کو قرض دے دیا ہے اور مزید ایک دو ملین ڈالر اپنے پلّہ سے کسی کو قرض دیا ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتو اس کی سودی آمدنی سودی ادائیگی سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ کیا آپ کسی ایسی کمپنی کو جس نے ایک ملین ڈالر کا قرضہ تو لیا ہے لیکن 3 ملین ڈالر کا قرضہ کسی کو دیا ہوا ہو،ایک ’مقروض‘ کمپنی کہہ سکتے ہیں؟  ٹویوٹا کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔اس کے دس سالوں کی بیلنس شیٹ سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ بنیادی طور پر یہ ایک ’مقروض‘کمپنی نہیں بلکہ ایک قرضخواہ یعنی قرضے دینے والی کمپنی ہے، اگرچیکہ اس کی بیلنس شیٹ میں سودی قرضے لینے کا ذکر ہے۔اسی ذکر کی وجہ سے ٹویوٹا والے بھی اور بعض اخبار والے بھی اس کو (Mushakkin Keiei)  یعنی ’مقروض‘ ہوئے بغیر چلائی جانے والی کمپنی کی تعریف میں شمار نہیں کرتے ۔میرا تجزیہ یہ ہے کہ ٹویوٹا سودی قرضے لیتی تو ہے لیکن یہ ایک ’مقروض‘کمپنی نہیں ہے۔
پچھلے 10 سال کے سارے اعداد وشمار آج بھی ٹویوٹا کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ان میں کہیں آپ کو یہ نہیں ملے گا کہ ٹویوٹا نے کوئی سودی قرض لے کر اپنی سرمایہ کاری کی ہو۔ جو بھی سودی قرض لیا ہے اس سے بہت بڑھ چڑھ کر کسی نہ کسی کو اور زیادہ تر اپنے گاہکوں کو قرض دیا ہوا ہے۔ جب کسی کمپنی کے اثاثوں میں وہ سودی رقم وجود ہی نہ رکھتی ہو جو اس نے کہیں سے قرض کے طورپر لی تھی، وہ ساری کی ساری کسی کو دے چکی ہو تو اس کے پاس وہ سودی قرضوں کا وجود ہی نہیں رہتا جو اس نے کہیں سے لیے تھے ۔ جب اس کے پاس ایسی کسی سودی رقم کا وجود ہی نہ ہو تو وہ اس سودی رقم سے اپنی سرمایہ کاری کیسے کرگی؟ اس طرح کی بلاسودی سرمایہ کاری کے سبب اس کی منافعوں سے جمع شدہ پونجی پچھلے 10  سال میں دگنی ہوگئی ہے000 ؁ کے 60 ارب ڈالر سے بڑھ کر اب 2010 میںاس کی دُگنی یعنی 120 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔
سودی قرضوں پر کام کرنے والی کمپنی کی Balance Sheet یعنی اثاثہ جات اور واجبات کے گوشوارہ میں
سودی آمدنی اور سود کی ادائیگی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو نظر آئے گا کہ اس میں سودی آمدنی بہت کم ہے اور سود
کی ادائیگی اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ اس نے سودی قرضے لیے ہوئے ہیں اور اس کو اس کا سود ادا کرنا
ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ ٹویوٹا کا پچھلے 10  سال کا  اثاثہ جات اور واجبات کا گوشوارہ دیکھیں گے توآپ کو اس کا الٹا نظر آئے گا۔آپ کویہ پتہ چلے گا کہ ٹویوٹا کی سود کی ادائیگی بہت کم اور اس کے مقابلہ میںاس کی سودی آمدنی بہت زیادہ ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹویوٹا نے سودی قرضے بہت کم لیے ہیں اور دوسروں کو بہت زیادہ دیے ہوئے ہیں۔اس کی وجہ سے اس کو سود اتنا دینا نہیں پڑتا جتناکہ اس کو اپنے دیے ہوئے سودی قرضوں پر سود کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ٹویوٹا کے منافعوں کا ذخیرہ پچھلے 10 سال میں جو 60 ارب ڈالر سے دُگنا ہوکر 120 ڈالر ہوا ہے وہ سودی قرضے لے کر ترقی کرنے سے نہیں بلکہ بلاسودی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں ہوا ہے۔
اس بات کا خود ٹویوٹا کمپنی والوں کو پتہ نہیں تھا یا اس طرف ان کی توجہ نہیں تھی کیونکہ یہ کوئی اسلامی کمپنی تو ہے نہیں کہ یہ دیکھتی رہی کہ سود کم لیا ہے یا زیادہ یایہ کہ سود کی آمدنی کم ہے یا زیادہ۔اس کی تو ہم مسلمانوں کو فکر رہتی ہے کہ یہ دیکھیں کہ سودی سرمایہ کاری یا بلاسودی سرمایہ کاری سے مرتب ہونے والے اثرات میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اور
یہ دیکھیںکہ ’مقروض‘ کمپنی اور ایک قرضخواہ کمپنی کی ترقی اور توسیع پراس کے ’مقروض‘ ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ٹویوٹا نے اپنے ’مقروض‘ نہ ہونے کا نتیجہ دکھادیا کہ وہ گاڑی سازی کی دنیا میںاتنی بلندیوں تک پہنچ سکتی
ہے کہ کسی ’مقروض‘ کمپنی کی پہنچ وہاں تک نہیں ہوسکتی۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.