حسین خاں ۔ ٹوکیو
ٹویوٹا کی طرح بزنس میں کامیابی کے طریقے2)
جاپان کی 1990 کی دہائی کو ’’ ضائع شدہ دہائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دہائی کے ضائع ہونے کی وجہ جاپان کے ماہرینِ معاشیات جاپانی کمپنیوں کے سودی قرضوں کو قرار دیتے ہیں۔جا پانی حکومت کے سودی قرضوں کی اس کی GDP سے فیصد تناسب دنیا کے ہر ملک سے اتنا زیادہ ہے کہ-20 کے سربراہوں کی کانفرنس نے جاپان کو اس تناسب کو کم کرنے کے معاملہ پر دباؤ ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے جاپانی حکومت پر ہی اس جنجال سے خود ہی نکلنے کی کوئی سبیل نکالنے پر زور دیا اور باقی سب نے اپنے لیے اس کمی کے لیے کوئی نہ کوئی ٹارجٹ مقررکیا۔MF کے009 کے اعداد وشمار کی بنیاد پر جاپانی حکومت کے قومی قرضوں کا اس کی GDP سے تناسب دنیا میں سب سے زیادہ18.6 تھا جبکہ امریکہ کا 84.8% تھا،اور یوروپی یونین کا8.2% تھا۔MF کے ایک اندازہ کے مطابق 2014 میں جاپان کے سودی قرضوں کا تناسب بڑھ کر 245 ہوجائے گا۔انشاء اللہ میرے آئندہ مضامین میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا کہ حکومتِ جاپان ان سرکاری تمسکات کے سودی قرضوں کے نتیجہ میںکن کن ناقابلِ حل مشکلات کا شکار ہے جو اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات ڈال رہے ہیں ۔ اسی طرح 2008 سے اب تک جس عالمگیر کساد بازاری نے امریکہ کے مکانات کے سودی قرضوں پر فروخت شدہ Mortgages کے دیوالیوں سے شروع ہوکر امریکہ کی ایک بڑی بنک Lehman Brothers کے دیوالیہ کا سبب بنی ، ان سارے مفاسد کی بنیاد بھی بنکوں کے سودی قرضے ہیں۔ اس کساد بازاری نے یورپ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے، یورپ میں تو آئس لینڈ اور آئرلینڈ کے بعد یونان، اسپین ،پرتگال وغیرہ بعض پورے کے پورے ملک بھی بنکوں کے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دیوالیہ کو سرحد کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ انھیں بچانے کے لیے امریکی صدر اوباما یورپ والوں کو تلقین کررہے ہیں کہ وہ بھی سب اپنی اپنی معیشت کی بحالی کے لیے امریکہ کے 70بلین کے Stimulus پروگرام کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یورپ بھی کساد بازاری بھی روکے اور ان مقروض ملکوں کو بھی دیوالیہ سے بچائے۔ پوری یوروپین کمیونٹی اس مقصد کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ ویسے تو سودی قرضوں سے پورے پورے ملک کیسے تباہ و برباد ہوئے اس کی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں۔920 کی دہائی میںeimar جرمنی جس بری طرح انتھائی مہنگائیyperinflation کا شکار ہوا۔ وہ سودی قرضوں کی لعنت کو آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ابھیچند سال پہلے998میں روس نے اور001 میںارجنٹائین نے اپنے دیوالیہ کا اعلان کیا کیونکہ یہ دونوں ممالک کی ٹیکسوں کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ یہ سودی قرضوں کی اصل نہیں تو کم از کم سود ہی سالانہ اداکرسکتے۔ اب بھی پاکستان اور دیگر کئی ترقی پذیر ممالک کے بجٹ کا ایک بیشتر حصہ سود خوروں کی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ممالک کیا معاشی ترقی کریں گے جو اپنی ٹیکسوں کی آمدنی اپنے ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ نہیں کرسکتے۔اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ تو سود کی ادائیگی میں دے کر اپنی اقتصادی ترقی کے لیے بار بار نئے سودی قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔روس اور ارجنٹائین دوبارہاقتصادی ترقی کی راہ پر اسی وقت گامزن ہوسکے جب انھوں نے اپنے آپ کو سودی قرضوں کی لعنت سے آزاد کیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے جنرل موٹرز اب کافی منافع پر اس لیے چلنے لگی ہے کہ اس نے اپنا دیوالیہ نکال کراپنے آپ کو سودی قرضوں سے اور اپنے کاروباری منافع کو سود کی ادائیگی کی نجاست سے آزاد کیا ہوا ہے۔
انفرادی ضروریات کے لیے لیئے گئے سود سے تو بھارت کے کسانوں کی طرح کئی جاپانی بھی خود کشی پرمجبور ہوجاتے ہیں۔اس طرح Usury کی لعنت تو واضح ہو جاتی ہے لیکن بنکوں کے سود سے تو پورے کے پورے ملک اور ان کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ تعجب ہے مغربی تہذیب و تعلیم اور اس کے اقدار کے پرستار ان مسلمان ذہنی غلاموں پر جودنیا میں اس قدر تباہی مچانے والے بنکوں کے سود کوجائز اور حلال کرنے کی تعبیریں ڈھونڈھ رہے ہیں ۔اور بعض عرب علماء کی سادگی کو اپنی مغربی اقدار کی ذہنی غلامی کے لیے جواز حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انفرادی زندگیوں کو تباہ کرنے والے سود کو تو اللہ تعالیٰ حرام قرار دے اور پورے پورے ملکوں کی معیشت اور اور کروڑوں، اربوں انسانوں کو نقصان پہنچانے والے سود کو حلال کردے؟ اس لیے اکثر علماء کے نزدیک قرانی اصطلاح ’ربا‘ کے معنوں میں انفرادیsury کے علاوہ بنکوں کا سود بھی شامل ہے، اگرچیکہ اس کا رواج ظہورِ اسلام کے 6 صدیوں بعدتیرھویں صدی میںاٹلی سے شروع ہو ا اور اب 21 ویں صدی میں اپنے شباب پر ہے۔
Y تقریباً ایک سو سال پہلے بھی اس کا رواج نہیں تھا جب ٹویوٹا کے موجودہ صدر آکی اُو تویوداکے پردادا سا کی چی تویودا نے 20 ویں صدی کی اخیر893 میں پہلے لکڑی کی اور پھر خودکار کپڑابننے کی خودکار لومز ایجاد کر کے اپنے کاروبار کو توسیع و ترقی دینی شروع کی تھی اور جس کے آٹوموبائیل شعبہ کی ابتداء ان کے لڑکے ،موجودہ صدر کے دادا کی اچی رو تویودانے 1933 میں شروع کی تھی۔ اسی بلاسودی سرمایہ سے کاروبار کرنے کے رواج اور روایات کے دور میں موجودہ ٹویوٹا نے 1937 میں جنم لیا ہے، جو اسی فلسفہ اور نظریہ سرمایہ کاری پر چل کر آج دنیا کی نمبر ایک موٹر ساز کمپنی بن گئی ہے۔
r مغربی تعلیم و تربیت کے زیرِ اثر احساسِ کمتری کا شکار مسلمانوں نے ان علماء کو اپنے مطلب کا معاملہ کا صرف ایک پہلو بتایا ہے اور اس ایک پہلو کو سامنے رکھ کر ان سے اپنے حق میں فتویٰ مانگا ہے۔ ایک تو یہ کہ جدید بنکنگ اس کے بغیر نہیں چل سکتی اور دوسرے یہ کہ مسلمان بنکوں سے سودی قرضے نہ لیں تو کاروباری معاملات میں ہمیشہ غیر مسلموں سے پیچھے رہیں گے جو بنکوں سے بڑے بڑے قرضے لے کر بڑی تیزی سے اپنے کاروبار کو بڑا کرکے مسلمان کاروباری لوگوں کو اپنا دست نگر بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اس طرح کی غلط باتیں علماء کو با ور کرواکے ان سے لوگوں نے سودی قرضوں کے حق میں فتوے حاصل کیے ہیں۔ علماء بیچارے کوئی معاشیات کے اِسکالر تو نہیں ہوتے، فتویٰ لینے والا جو پہلو ان کے سامنے رکھ دے ،وہ اس کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کردیتے ہیں۔اگر انھیں یہ بتایا جائے کی آپ کوجو باتیں باور کرائی گئیں ہیں وہ غلط ہیں اور یہ کہ بنکوں کے سود کے مفاسد اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جو انفرادی سود کی صورت میں ہوتے ہیںتو یقینا ایسے علماء اپنی رائے سے رجوع کرلیں گے۔ میرا مسلک وہی ہے جو ہند و پاک کے اکثر و بیشتر علماء کا ہے۔ مولانا مودودی ؒ اور دوسرے بہت سارے عرب اور ہند وپاک کے علماء کا مسلک یہ ہے کہ کاروباری ضروریات کے لیے بنکوں اور تمسّکات کے قرضوں کے سود کو بھی قران و حدیث کی اصطلاح ’ربا‘ میں شامل کرکے علماء
اسلام کی عظیم اکثریت اسے بھی حرام قرار دیتی ہے۔
بنک اور تمسُّکات کا سود حرام ہے یا نہیں ہے، اس بحث سے قطع نظر یہ دیکھیں کہ سودی قرضوں سے کام کرنے والی کمپنیوں کا زیادہ تر انجام دیوالیہ ہے اور اگر دیوالیہ سے بچ بھی گئےں تو بلاسودی سرمایہ والی اسی لائین والی کمپنی سے مسابقت کی دوڑ میں جیت نہیں سکتیں۔ اس لیے حرام یا حلال کی بحث میں پڑنے سے پہلے دنیوی طور پرفائدہ مند یا نقصان دہ ہونے کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے ،تب بھی سودی قرضوں کی پالیسی نقصان دہ اور بلاسودی سرمایہ کی پالیسی فائدہ مند نظر آئےگی۔ میرے موجودہ ٹویوٹا کے مضامین کے سلسلہ کا یہی ایک بڑا مقصود ہے کہ سودی قرضوں کے بغیر بھی ٹویوٹا جیسی کمپنی گاڑیوں کی لائین میں سب سے بڑی اور سب سے مسابقت میں آگے نکلنے والی کمپنی بن سکتی ہے۔ ٹویوٹا کی
کامیابی کی مثال کو مسلمان سامنے رکھیں تو بلاسودی سرمایہ کاری کے نظریہ کی کامیابی سامنے آتی ہے۔کاروباری مقاصد کے لیے اگر بلا سودی سرمایہ کاری ایک کامیاب نظریہ ثابت ہوسکتا ہے تو ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم بنکوں اور تمسکات کے سود کو بھی حلال کرنے کی تعبیریں نکالیں ۔ اسکے برعکس ہمیں یہ خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے کہ اگر بنکوں کے سودی قرضوں کو بھی قرانی اصطلاح ’ربا‘ میں شامل کرلیا جائے تو مسلمان بہت سارے مفاسد سے بچ کر ٹویوٹا کی طرح کامیاب
بزنس کرسکتے ہیں۔
(آپ چاہیں تو مزید سوالات، اعتراضات اوراچھے یا برے، تنقید یا تعریف کے تبصرے درجِ ذیل ای میل پر بھیج سکتے ہیں۔) cj@ourquran.com
(جاری ہے)