تحریر : حسین خاں ۔ ٹوکیو
بچہ کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ بلبلاکر رونے لگتا ہے تو ماں اس کو دودھ دے کر چپ کرتی ہی۔ جب کسی نوجوان کو بھوک لگتی ہے اور اس کی غربت، افلاس اور بے روزگاری اسے کہیں سے روٹی فراہم نہیں کرتی تو وہ تنگ آمد بجنگ آمد اور مرتا کیا نہ کرتا کے بمصداق اپنی ہی طرح کے دوسرے بھوکے ، ننگی، مفلس ، غریب بے روزگاروں سمیت سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آتا ہی۔ پولیس کی آنسو گیس اور ڈنڈوں سے بھی ڈر کر نہیں بھاگتا۔ اس پر پولیس کے ظلم و ستم کا یہ حشر دیکھ کر اور بہت سے لوگ بھی ا س کی ہمدردی میں سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگتے ہیں۔ آمریت اور جبر کی حکومتیں جتنا اسے دبانے کو شش کرتی ہیں، اتنا ہی یہ ا حتجاج بڑھتا چلا جاتا ہی۔اخیر میں فوج کو گولی مارنے کا حکم دیا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر فوجیں کسی عوام میں غیر مقبول آمرِ مطلق کی خوشنودی کی خاطراپنے ہی ہزاروںشہریوں کو مارنے سے اجتناب کرنے کے بہانے ڈھونڈھتی ہیں ، جیسا کہ فوج نے مصر کے مظاہرین کو اطمینان دلایا کہ وہ اپنے ہم وطنوںپر گولی نہیں چلائے گی۔8 دن پہلے جب فوج نے یہ اطمینان دلایا تو اسی وقت یہ یقینی ہوگیا تھا کہ اب حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ قریب آگیا ہی۔
قاہرہ کے میدان التحریر میں 18دن تک مصری عوام نے پر امن مظاہرہ کی تاریخی مثال قائم کرکے دکھائی۔ پاکستانیوں کی طرح توڑ پھوڑ اور گاڑیوں کو آگ لگانے سے باز رہی۔ صرف حسنی مبارک کی پارٹی کے صدر دفتر کو آگ لگائی۔ وزیرِ دفاع فیلڈ مارشل طنطاوی کے بارے میں رپورٹیں آنے لگیںکہ یہ شخص حسنی مبارک کا پروردہ پالتو کتّا ہی۔ یہ کبھی حسنی مبارک کے خلاف کھڑا نہیں ہوگا۔لیکن مصری فوج میں ایسے بھی جنرل تھے کہ جنھوں نے آج سے کئی سال پہلے ہی حسنی مبارک کے دور ہی میں نیویارک کے مشہور مالیاتی نمبر اخباروال اسٹریٹ جرنل کو یہ انٹر ویو دیا تھا کہ مصری فوج کسی غیرمقبول حکومت کی دفاع کے لیے اپنے ہی ملک کے نہتّے عوام پر گولی نہیں چلائے گی۔ اس بیان پر حسنی مبارک برہم تو بہت ہوئے تھے لیکن کسی فوجی جنرل کو نکال کر فوج کو اپنے خلاف کرنے کی ہمت نہیں کرسکے تھی۔مصری فوج نے 18 دن تک صبر کیااور حسنی مبارک کو موقع دیا کہ وہ خود ہی استعفٰی دے کر الگ ہو جائیں ، لیکن اخیر وقت تک وہ اقتدار سے چپکے رہے اور اخیر میں جب مصری ٹیلی ویژن پر آئے تو اپنے استعفے کا اعلان کرنے کے بجائے اپنا استعفیٰ نہیں دینے کااعلان کیا۔ صدر اوباما بھی اس اعلان کو سننے کے لیے ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے انھیں بھی اور میدان التحریر کے ہر بچہ بچہ کو اس اُلٹے اعلان سے بڑی مایوسی ہوئی۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد نائب صدر سلیمان کا ٹیلی ویژن پر اعلان آیا کہ صدر حسنی مبارک نے استعفیٰ دے کر سارے اختیارات نائب صدر سلیمان کو نہیں بلکہ فوج کو منتقل کیئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر کہ انھوں نے استعفیٰ اپنی خوشی سے نہیں دیا، بلکہ یہ ان سے لیا گیا ہی۔ اور یہ استعفیٰ لینے والی مصری فوج ہی تھی، جس کو مظاہرین نے اپنے 18 دن کی مستقل مزاجی سے مجبور کردیا تھا کہ یا تو ہم پر گولی چلاؤ یہ حسنی مبارک سے استعفیٰ لو۔ ان مظاہرین کا ساتھ دینے کے لیے ہر دفتر اورکارخانہ میں کام کرنے والوں نے ہڑتال بھی شروع کردی تھی ۔سارا نظامِ حکومت معطل ہوچکا تھا۔ فیلڈ مارشل صاحب کتنے ہی حسنی مبارک کے کتّے رہے ہوں ، سارے جنرل تو کتے نہیں تھے اور بننا بھی چاہتے تو نہیں بن سکتے تھی، کیونکہ اگر حسنی مبارک کو بچانا ہے تو پھراپنے عوام پر گولی چلاؤ۔اور پھر کیا گولی چلانے سے کارخانے اور دفتر بھی چلنے لگ جاتی؟ عوامی طاقت کے آگے ساری سازشیں اور فوجی طاقت بھی بے طاقت ہوجاتی ہی۔
جہاں جہاں بھی دورِ جدید میں حکومتوں میں تبدیلی آئی ہے ، اس کا آخری مرحلہ یہی رہا ہے کہ فوج نے کسی غیر مقبول حکومت کو بچانے کے لیے اپنے ہی ملک کے نہتّے عوا م پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔سوویت روس اسی طرح ختم ہوا۔فلپائین کا صدر مارکوس اسی طرح بھاگا، شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی بھی، اور اخیر میں ٹیونس کے زین العابدین بن علی بھی اور اب مصر کے حسنی مبارک بھی۔
یہ سچ ہے کہ زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ جب عوام کسی بات پر سڑکوں پر آجائیں تو کوئی بھی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ہم نے پاکستان بھی انگریز اور ہندو کے طاقت کے خلاف اسی لیے حاصل کیا تھا کہ ہندوستان کے سارے مسلمان پاکستان کا مطلب کیا، ،لا الٰہ الّا اللّہ کے نعرے کے تحت مسلم لیگ کے کھمبے کو بھی ووٹ دینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھی۔
0 ٹیونس میں بھی جب فوج نے گولی چلانے سے انکار کردیا تو وہاں کے صدر زین العابدین بن علی کو اپنی خیریت اسی میں نظر آئی کہ اپنی حجامت پیشہ بیوی لیلیٰ طرابلسی کے ذریعہ ٹیونس حکومت کی مرکزی بنک سے ڈیڑھ ٹن سونا نکلواکرٹیونس سے فرار ہوجائیں۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے اور یورپ کے سارے ممالک نے ان کی اور ان کے خاندان کی ساری دولت اور اپنے بنکوں میں موجود سارے خفیہ اکاؤنٹ منجمد کرلیے ہیں۔ ٹیونس کے عوام کا حق مار کر جو سونا وہاں سے چراکر لائے ہیں ،شاید وہی اثاثہ اب ان کی اور ان کے خاندان کی مستقبل کی زندگی کا سہارا بنی۔ فرانس اور دوسرے ممالک نے انھیں پناہ دینے سے انکار کردیا تو سو چوہے کھاکر بلّی پھر حج کو چلی کے بمصداق مکّہ مدینہ کی سرزمین، سعودی عرب ،کا رخ کرلیا۔ اس طرح جائے پناہ انھیں جدّہ میں ملی۔زندگی بھر تو اسلامی جماعتوں کو ٹیونس میں کچلتے رہے اور جب خود کو پناہ لینے کی ضرورت پیش آئی تو اسی سرزمین پر پناہ لینی پڑی جہاں سے اسلام کی ابتداء ہوئی تھی ۔ اس اسلام کی شریعت کو یٹونس میں یہ نافذ تو کیا کرتی، اس کے نام لیواؤں کو جیلوں میں بند کرتے اور انھیں اپنی ظالم پولیس کے ذریعہ سخت تعذیب کا شکار کرتے رہے ہیں ۔ اس طرح فوج کے گولی چلانے سے انکار کی وجہ سے ان کے اپنے ملک سے فرار کے سبب ٹیونس کے مسلمانوں پر سے ایک سیکولر لادینی حکمران کے جبر و استعداد کا دور ختم ہوا۔
بظاہر تو ٹیونس اور مصر کا احتجاج اور مظاہرے روٹی،کپڑا اورمکان کے لیے ہوئی۔جمہوریت اورآزادانہ انتخابات کے لیے ہوئی۔ اس کی ظاہری شکل تو معاشی، اقتصادی اور سیاسی مطالبات کی تھی۔لوگ غربت ،افلاس ، بے روزگاری، اقرباء پروری، احباب نوازی،ناانصافی، زیادتی ،پولیس کے ظلم و ستم وتعذیب کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے آزادی، حرّیت ، جمہوریت‘ مساوات اور صاف و شفاف انتخابات کے لیے سڑکوں پر آگئے تھی۔لیکن ان سارے مسائل کی جڑ کیا تھی؟ کس وجہ سے یہ سارے اقتصا دی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کھڑے ہوگئے تھی؟اس طرح کے سارے مسائل کو جنم دینے والے کوجڑ سے اٹھا کر نہ پھینکا جائے تو کسی بھی مسئلہ کے حل ہونے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی۔ کسی کو بھی یہ ابہام نہیں تھا کہ ان سب مسائل کے روز بروز بڑھنے کی اصل وجہ وہ خدا سے بے خوف سیکولر لادینی لیڈرشپ تھی جوٹیونس میں گذشتہ 23 سال سے ان پر مسلط تھی اور مصر میں گذشتہ0 سال سے ۔
اگر ان مسائل کو ایک ایک کرکے علیحدہ علیحدہ حل کر بھی لیا جائے تو یہ پھر کسی نہ کسی نئے روپ میں ابھر کر لوٹ آتی۔ اگر جسم سے خون کا فاسد مادّہ باہر نکال نہ دیا جائے تو جسم پر نکلے ہو ئے پھوڑے پھنسی صرف باہر باہر کی مرہم پٹی سے ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر وقتی طورپر ٹھیک ہوبھی جائیں تو جب تک رگوں میں وہی فاسد خون دوڑ رہا ہو ، پھر وہی یا اس سے بڑھ کر دوبارہ پھوڑے پھنسیاں نکل آئیں گی۔سڑک پر نکل آنے والے ایک غیر تعلیم یافتہ ، جاہل،چھابڑی والے کو بھی اس کا پتہ تھا کہ جب تک ہم ایک خدا سے بے خوف سیکولر لادینی حکومت سے نجات حاصل نہیں کریں گے ، ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اس لیے ہر سڑک پر آنے والے کا نعرہ یہ تھا کہ ہمارا سیکولر لادین حکمران جب تک ہم پر مسلط ہی، ہم اسی طرح کسی نہ کسی اللہ کے عذاب کا شکاررہیں گی۔ اس جڑ کو اکھارپھینکنے کے بعد ہی ہمارے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ کسی نے یہ مطالبہ نہیںکیا کہ اگر ہمارا افلاس ، ہماری غربت اور ہماری بے روزگاری حل ہوجائے توتم جیسا سیکولر حکمران ہی ہم پر مسلط رہے تو ہم اسے برداشت کرلیں گی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم کو آزادی، حریت، جمہوریت، انصاف دے دو اور آزادانہ انتخابات کروادو تو ہم تمہاری سر براہی قبول کرلیں گی۔ مظاہرین نے سب نے مل کر صرف ایک بات کہی کہ ہمیں تم جیسا خدا سے بے خوف سیکولر لادین حکمران نہیں چاہیئی۔ تم اگر ہماری جان چھوڑدو تو ہمارے سارے مسائل تمہارے یہاں سے چلے جانے ہی سے حل ہو جائیں گی۔
مصر میں اس صورتِحال کی عملی شکل یہ رہی کہ نائب صدرسلیمان نے حزبِ اختلاف کی ساری پارٹیوں سے ملاقات کرکے ان کے تقریباً سارے مطابات ماننے کی یقین دہانی کی۔ دستور میں تبدیلیاں کرنے کی بھی۔منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کی بھی۔ لیکن ان سب کا بھی اور مظاہرین کا بھی متفقہ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ان سب مطالبات کو ماننے سے بھی کچھ نہیںہوگا جب تک کہ ان سب مطالبات کو پیدا کرنے والی جڑ یعنی لیڈرشپ کی چُھٹّی نہ کی جائی۔ مصر میں نوجوانوںکے بیروزگاری ہو یا مہنگائی یا اقرباء پروری ہو یا احباب نوازی، یہ اور اس طرح کے سارے معاشی، سیاسی یا معاشرتی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک کہ پہلے ان سارے مسائل کا پیدا کرنے والا ہمارا سربراہ ہماری نظروں سے دور نہ ہوجائی۔
اگر یہ سربراہ ایک اسلا م پسند ہوتا تو ہم سب کو انصاف ملتا اور ہمیں یہ مظاہرے کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ حسنی مبارک ایک سیکولر حکمران تھے ۔ جس شخص کو مسجد کے باہر کوئی خوفِ خدا نہ ہو، جو قانون، سیاست، معیشت اور معاشرت کسی بھی معاملہ میں اللہ کے احکامات ماننے تیار نہ ہو، جو مسلمانوں کے ایک ملک کا سربراہ ہونے کے باوجودوہاں پر شریعت نافذ کرنے کا مخالف ہو، ایسی قیادت کی موجودگی میں ہم کسی بھی طرح کی اصلاحات اور اقدامات کو کوئی فائدہ نہیں سمجھتے جب تک کہ ایسی لیڈر شپ سے ہماری جان نہ چھوٹی۔
اگر تم شریعت نافذکرتے تو ہمیں انصاف ملتا۔ ہم تمہاری اقرباء پروریاور احباب نوازی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے انصافی اور تمہاری پولیس کی زیادتیوں سے محفوظ ہوتی۔ اگر تم یہاں بِلاسودی معیشت نافذ کرتے تو یہ ملک سرمایہ داری کی لعنت سے بچا رہتا۔صرف تمہارے رشتہ دار اور دوست احباب ہی مالدار نہیں بنتے بلکہ دولت کی مساویانہ تقسیم ہوتی اور ہم جیسے غریبوں اور مفلسوں کو بھی ہمارا حق ملتا۔ اگر تم یہاں نظامِ زکوٰۃ نافذ کرتے تو ہمارے ملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہوتا، ہمارامسقبل بڑا تابناک ہوتا۔یہاں کوئی غریب اور مفلوک الحال نہیں ہوتا اور وہ دن بھی آتا جب صحابہ کے دور کی طرح امیر لوگ اپنی زکوٰۃ لیئے لیئے پھرتے اور انھیں اس کا کوئی لینے والا مستحق نہیں ملتا۔
تمہارے سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز، روزہ اور عبادات کے علاوہ اللہ کو کوئی حکم جو مسجد کی دنیا سے بھر انسان کی معیشت، معاشرت ، سیاست اور اخلاقیات سے متعلق ہو، تم اس کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا کوئی ارادہ نہیںر کھتی۔تمہارے اندر جب مسجد کے باہر کوئی خوفِ خدا ہی نہ رہا تو تم کو انصاف اور حق و سچائی پر چلانے والی دوسری کونسی طاقت ہوسکتی ہی؟اس طرح کے لادینی خیالات اور سوچ و فکر کے ساتھ تمہارا ہمارے سروں پر مسلط رہنا ہی ہمارے مسائل کی جڑ ہی۔ اس لیے ہمارا واحد مطالبہ یہ ہے کہ تم ہماری حکمرانی چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤ۔ تمہارے اقتدار سے ہٹ جانے ہی سے ہمارے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہمارے سارے مظاہروں کا صر ف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ تم جیسا سیکولر لادین حکمران اقتدار چھوڑ دی۔
احادیث میںقربِ قیامت کی نشانیوں میں سے چند باتیں جو اب نظر آنے لگی ہیں ، ان میں سے کم و بیش ایک یہ ہے کہ یہودی ساری دنیا سے بھاگ بھاگ کر آکر کسی ایک جگہ پر جمع ہو ں گی۔948 میں اسرائیلی ریاست کا وجود میںآنا اس حدیث کی صحت پر دلالت کرتا ہی۔ ساری دنیا سے بھاگ بھاگ کر یہاں آکر جمع ہونے لگے ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’قادیانی مسئلہ‘‘ میں اس کا تفصیلی نقشہ کھینچا ہی۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کانے دجّال کا ظہور ہوگا۔ یہ اپنی فوجوں سے مسلمانوںپر ظلم و ستم ڈھاتا ہواآگے بڑھتا ہوا آئے گا۔ عیسیٰ علیہ السّلام فجر کے وقت دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر نازل ہوں گی۔ کانے دجّال کی فوجوں کو پسپاکرتے ہوئے بالآخر لُدّھ کے مقام پر اس کو قتل کردیں گی۔واضح رہے کہ لُدّھ وہ مقام ہے جہاں پر آجکل اسرائیل کی ایر فورس کا ہیڈکوارٹر ہی۔
اس طرح کی احادیث میں قربِ قیامت کی دوسری علامات میں سے دوسری جو مزید باتیں لکھی ہیں،جن کی طرف توجہ کرنے کی مولانا مودودی کو اپنے دور میں شاید کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، ان میں سے اس وقت قابلِ ذکر ایک بات کم و بیش یہ ہے کہ ان احادیث میں بھی کہا گیا ہے کہ مسلمانوں پر ایک جبر کا دور آئے گا اور پھر ایک دور آئے گا جبکہ اسلام کاجگہ جگہ پر بول بالا ہوگا۔ترکی اور ایران میںجبر کی حکومتوں کے بعد اسلام پسند حکومتوں کا وجود میں آنا اور پھر اس کے بعد ٹیونس میں ایک 23 ۔سالہ جبر کی حکومت کا ختم ہونا اور اس کے بعد مصر کی 30 ۔سالہ حسنی مبارک کے اقتدار کا خاتمہ ہونا اور یمن میں اپنے ملک کی 32۔سالہ جبر کی حکومت کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا سڑکوں پر نکل آنا، جیسے حالات سے یہ ظاہر ہونے لگا ہے کہ شاید احادیث کی پیشین گوئیوں کے مطابق جبر کے دور کے ختم ہونے اور اسلام کی سربلندی کا دور شروع ہونے کا وقت اب قریب آچکا ہی۔کچھ اور نہیں تو کم از کم یہ بات تو یقینی نظر آرہی ہے کہ اب سیکولر لادینی جبر کی حکومتوں سے نجات کے حصول کا دور تو ضرور شروع ہو ہی چکا ہی۔ اس کی وجہ پاکستان میں ’جیو‘ جیسے میڈیا کا طاقت پکڑنا ہو یا دنیائے عرب میں’الجزائر‘ جیسے ٹیلیویژن کی مقبولیت ہو یا انٹرنیٹ اور Facebook یا Twitter جیسے ذرائع و وسائل کا عام ہونا۔
وجہ خواہ کچھ بھی ہو ، مولانا مودودی نے یہ کہاتھا کہ جیسے جیسے پاکستان یا دوسرے مسلم ممالک میں جمہوریت عام ہوگی ،اسلام پسند لوگوں کے اقتدار میں آنے کے اور نفاذِ شریعت کے امکانات بڑھتے جائیں گی۔ افسوس کہ ابھی پاکستانی جمہوریت پر بڑے بڑے جاگیرداروں، زمینداروں اور وڈیروں کا قبضہ ہی،لیکن پھر بھی میڈیا ، جلسے جلوسوں، مظاہروں اور دھرنے دینے کی جمہوری طاقت سے پاکستان سے بے نظیر بھٹو کی پہلی سیکولر حکومت سے نجات حاصل کی گئی اور پھر جنرل مشرف کی فوجی آمرانہ حکومت سے بھی۔جب ان وڈیروں اور زمینداروں کے قبضہ سے جمہوریت آزاد ہوگی تو پھر اسلامی حکومت کے بر سرِ اقتدار آنے اور ملک بھر میں نفاذِ شریعت سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی۔
ترکی میں جب اتاترک کی سیکولر حکومتوں کو923 سے لے کر002 تک مسلسل 81 سال ناکامیاں ہوئیں اور ترکی عوام کو بھی خدا سے بے خوف ان سیکولر لادینی حکومتوں کے کرپشن کے نتیجہ میں غربت،افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار ہونا پڑا یہاں تک کہ بنک بھی دیوالیہ ہونے لگے تو پھر عوام کی طاقت نے موجودہ اسلامی حکومت کو جنم دیا۔ انھوں نی002 میں موجودہ اسلام پسندوں کو بھاری اکثریت میں ووٹ دیا اور اب ان کے معاشی واقتصادی حالت میں خاصی بہتری آچکی ہی۔اس حکومت کی اسلامی میانہ روی سے دوست اور دشمن سب خوش ہیں۔مسلم ممالک میں خصوصاً عربوں نے اس کو اپنے لیے ایک مثال بنایا ہوا ہی۔ یورپ نے ترکی فوج کو تڑی دی ہے کہ فوج اگر پانچویں دفعہ پھر موجودہ برسرِ اقتدار حکومت کو ہٹا دے اور جمہوریت کا گلا گھونٹے تو پھر ترکی کو یورپ کی مشترکہ منڈی میں شامل نہیںکیا جائے گا۔ ایں چی بوالعجبی است کہ یورپ ایک اسلام پسندوں کی حکومت کی حمایت کررہا ہے اور امریکہ کے صدر بش نے بھی اور صدر اوباما نے بھی کہ اگر ترکی کی طرح میانہ رو جمہوری حکومتیں مسلمان ممالک میں آئیں تو ہمارا ان سے اچھا تعاون رہے گا اور سب مسلمان حکومتیں ترکی کی موجودہ اسلامی حکومت کو اپنے لیے مثال بنائیں تو بہتر ہوگا۔
ایران میںشاہِ ایران کی خدا سے بے خوف حکومت لاکھوں ڈالر خرچ کر کے بھی عوام کی تکالیف کو دور کرسکی نہ ہی ان کی غربت، افلاس اور بے روزگاری کو دور کرسکی تو عوام سڑکوں پر نکل آئے اور امام خمینی کی ایک اسلام کی نام لیوا حکومت وجود میں آئی۔
فلسطین میں بھی یاسر عرفات اور اسکے جانشینوں کی خدا سے بے خوف سیکولر لادینی حکومت کی پیدا کردہ تکالیف کی ازالہ کی طرف اسی وقت قدم آگے بڑھا جب انھیں آزادانہ انتخابات کا موقع دیا گیا تو عوام نے اپنے ووٹوں سے حماس جیسی ایک اسلام پسند پارٹی کو اقتدار پرپہنچایا۔
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جہاں بھی خدا سے بے خوف سیکولر لادینی حکومتیں تھیں ،عوام تکالیف اور مشکلات کا شکارتھی۔ ان جبر کی حکومتوں سے جہاںجہاں بھی عوام ‘ ووٹ یا مظاہروں کی طاقت سے ان کو الٹنے میں کامیاب ہوئے وہاں وہاں اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق اسلام پسند حکومتیں آتی گئیں۔ اب امریکہ اور اسرائیل کو یہی ’خطرہ ‘ہے کہ ان ملکوں میں بھی اسلام پسند حکومتوں کی آمد ،آمدکو خطرہ ہی۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر صاف ستھرے الیکشن ہوئے تو کہیں مصر میں آہستہ آہستہ یا تیز تیز اخوان المسلمین اور ٹیونس میں اسلام پسند MIT یا شیخ غنوشی کی النہدہ پارٹی کی حکومت نہ آجائی، جیسا کہ ترکی، ایران،فلسطین اور کسی حد تک لبنان میں نصراللہ کی حزب اللہ پارٹی کی بڑی حد تک زیرِ اثر حکومت آچکی ہی۔