یہ تو ہونا ہی تھا۔تحریر راشد صمد خان

کمیونٹی کو بیوقوف بنانے والے خودہی بے نقاب ہو گئی۔
الیکشن سے لیکر انفیکشن تک یہ کوئی لمبی کہانی نہیں ہے اور نا ہی نئے کردار ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو آپ کے اردگرد نظر آتے ہیں
اور جو اپنے آپ کو کمیونٹی میں سب سے زیادہ دانشور اور سمجھدار کہلوانے کے شوقین بھی ہیں اور کمیونٹی کے ٹھیکیدار بھی بنتے ہیں خود ہی چیزیں بناتے ہیں اور پھرخود ہی انھیں اپنے ہاتھوں سے تروڑ مروڑ کے ان کی تزلیل بھی کرتے ہیں
یا
جان بوجھ کر کرواتے ہیں چاہے وہ ۹ رکنی کمیٹی ہو اور چاہے وہ ان کا بنایا ہوا الیکشن کمیشن  ہوحتیٰ کہ ان کا صدر بھی ان کے نشانے سے بچ نہیں سکتا
اور آج وہ دوبارہ سے اس ایسوسی ایشن کے جگت سیکریٹری  بن جاتے ہیں جس کا کوئی صدر نہیں اور نہ ہی کوئی بننے کے لئے تیا رہے اور اب ان کے پاس ایک ہی  چوائس ہے کہ وہ اُسے ہی صدر بنا دیں جس کو انسان سے زیادہ صدر بننے کا شوق ہو
اور شائد ایسا ہی ہو اور کمال کی بات یہ ہے کہ صحافت ہو سیاست ہووکالت ہو یا پھر کوئی زلالت ہو ہمیشہ نمبر ون ہی کہلانے کے قائل ہیں جس پر پوری کمیونٹی کو ان کی ہمت کی داد دینی چاہئے
ایسے لوگوں نے چند کتابیں اپنی جیبوں میں بھری ہوتی ہیں جن کو انھوں نے کبھی کھول کر بھی نہیں دیکھا ہوتااور انہی بن پڑھی کتابوں کے بلبوتے پر اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن میں نے کچھ لوگوں کو کہتا سنا ہے کہ گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ عالم نہیں بن جاتا ۔
شائد میں کہیں غلطی پر ہوںویسے بھی انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے ۔شائد  اس لئے کہ ہماری کمیونٹی ہی ایسی ہے اُسے تو کھانے سے مطلب ہے چاہے صدر یا سیکریٹری کسی بھی تنظیم  یا ایسوسی ایشن کا ہو بس جلسہ ہو اور ساتھ کھانے کا اہتمام کمیونٹی ہماری ایسے ٹوٹے گی جیسے یہ آخری کھانا ہو

بغیر کھانے کے یہ لیڈر ایک جلسہ بھی کراکے دکھا دیں ۰۱ یا ۵۱ سے زیادہ لوگ جمع نہ کر پائیں گے  اس کی مثال میں یوں دوں گا کہ پاکستان ایمبیسی میں لگاتار کچھ پروگراموں میں لوگوں کو کھانے میں

پکوڑے اور چنے دیئے گئے  لوگ ایمبیسی کے پروگراموں میں آنا چھوڑ گئے اس لئے کہ انھیں وہاں
صرف پکوڑوں اور چنوں کی سمجھ آئی باقی جو باتیں تھیں ان کی عقل سے بالا تر تھیں اور آپ تمام لوگوں نے بھی اکثر نوٹ کیا ہو گا کہ  جلسے اور جلوسوں کے اختتام پر  لوگ کھانے پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں کہ کھانا بڑا چنگاسی یا بیکار سی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا ہو گا
کہ فلاں کے خیالات یا تقریر اچھی تھی یا بُری تھی۔ویسے بھی ہمارے لوگ مشکلوں میں نہیں پڑتے اور نہ ہی کسی سے بگاڑنے کے حامل نظر آتے ہیں اس لئے غلط کو بھی صحیح کہہ دیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آنے والے وقت میں اسکے کیا اثرات ہو سکتے ہیںجیسے کہ آج کل قبرستان کا موضوع گرم ہے  ہمارے ایک بھائی نے قدم اٹھایا اچھی بات ہے  اپنے ساتھ کچھ اچھے اور عقل مند دوستوں کو بھی ساتھ لیا  قبرستان کی رقم کا کچھ حصہ اپنے طرف سے دیا باقی کے لئے کمیونٹی سے درخواست کی اور اب جب ہاتھی نکل گیا اور پونچھ رہ گئی تو ہمارے دوست نے اس  انسانی قبرستان کو سیاسی قبرستان کی شکل دیدی یا یوں کہہ لیںجب خود سے کچھ نہیں ہوا تو اسے کچھ لوگوں کے ہاتھوں جان بوجھ کر ہائی جیک کرا دیا  چلیں یہاں تک توٹھیک ہے جب اس قبرستان میں تدفین ہو گی تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا نہ ہوکہ تدفین یہ کہ کر منع کر دی جائے کہ یہ بندہ ہمارا ساتھ نہیں دیتا تھا یا کسی اور تنظیم سے تعلق رکھتا ہے ۔ابھی تو قبرستان کے لئے چندہ ہو رہا ہے کل مجھ غریب بندے کی تدفین کے لئے چندہ ہو رہا ہو گا  بلین آف ڈالرز کی بات کرنے والوں نے پاکستانی کمیونٹی کو چندے پر لگایا ہوا ہے کاش کوئی ایسا بندہ ہوتاجو چپکے سے قبرستان بنا جاتا اور پھر لوگوں کو پتا چلتا اور تدفین کے اخراجات بھی کم ہوتے تا کہ لوگ خوشی خوشی مر سکتی۔۔
۔تحریر راشد صمد خان

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.