ایک عدد کیمرہ گلے میں لٹکانا اور اخلاق سے گری ہوئی تحریریں لکھنے والے اپنے آپ کو صحافی سمجھنے لگے ہیں اور اس وقت اپنے اپنے نیٹ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں اور رپورٹر ہیں اور ہر صحافی کا دعویٰ ہے کہ وہ پیدائشی صحافی ہی
اختلافات کی بنا ء پر مختلف لوگ اپنے پسند کے نیٹو ں کے ساتھ وابستہ ہو کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں
لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لئے غلیظ اور اخلاق سوز ویب سائٹس اور ای میل ایڈریس بنا لئے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کے توہین آمیز کارٹون یا اخلاق سے گری ہوئی زبان میں لکھے ہوئے مضامین بھیجتے ہیں
بکواس قسم کی شاعری کرنے والے شرابی ،چرسی، ہیروئنچی، بدکردار، بد شکل اورمنحوس شاعر ، گالم نگار ، رپورٹر،نام نہاد مذہبی اور جعلی سیاست دان اور نو دولتئے سرمایہ کار شامل ہیں ، جو اپنی سستی شہرت کے حصول کے لئے حرام کی کمائی لٹاتے ہیں اور اپنی تصاویر مخصوص نیٹوں پر شائع کرواکر خود ہی خوش ہوتے رہتے ہیں
مورخہ ۵ مئی کو بھی یوکی شہر میں واقع ایک مسجد میں پیش آیا جس میںایک نام نہاد سیاست دان، بعزم خود دین کا ٹھیکیدار، غلیظ اور طرح ساز ویب سائٹ کا مالک رانا ابرار ولد ٠٠٠٠٠٠٠؟؟؟؟؟؟ نامی شخص ہے جس نے اس روز مسجد میں نشے کی حالت میں غل غپاڑہ کیا اور مسجد کی انتظامیہ کے ایک معزز رکن سے بد تمیزی بھی کی
تحریر۔ناصر ناکاگاوا
ایک زمانہ تھا جب پاکستانی بہتر روزگار اور روشن مستقبل کے لئے جاپان کا رخ کیا کرتے تھے ، جاپان کی عوام اور حکومت نے انھیں ہر دور میں خوش آمدید کہا اور آج تقریباََ ہر پاکستانی اپنی محنت و دیانتداری سے اپنی اپنی کمپنیوں کے صدر اور بڑے بڑے کاروباروں کے مالک ہیں ۔زیادہ تر پاکستانی جو یہاں جاپان میں مستقل سکونت پزیر ہیں وہ نئی و پرانی گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ تاہم کچھ تعداد جاپانی کمپنیوں میں ملازمت اور کچھ تعداد دیگر کاروبار سے بھی وابستہ ہے جس میں حلال فوڈز، پاکستانی و بھارتی ریستوران، ٹرانسپورٹ اور پرنٹنگ پریس وغیرہ شامل ہیں۔ نہایت ہی معذرت کے ساتھ کہ امریکہ و یورپ کے مقابلے میں جاپان میں مقیم اعلیٰ تعلیمِ یافتہ پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اکثریت کی تعداد واجبی تعلیم یا انپڑھ لوگوں کی ہے ، تاہم یہ لوگ عرصۂ درآز سے جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں زندگی گزارنے اور یہاں کے رہن سہن کے اثر کی وجہ سے اُن تعلیمِ یافتہ لوگوں سے زیادہ مہذب ، ایماندار، محنتی اور رکھ رکھائو والے ہیں جو وطنِ عزیز میں مقیم ہیں اور تعلیمِ یافتہ کہلواتے ہیں۔
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جسے ایمانداری سے اپنایا جائے تو یہ کسی عبادت سے کم نہیں ، مگر اس میں بے ایمانی کی جائے تو یہ کسی شیطانی کام سے کم نہیں۔حال ہی میں دیکھا گیا ہے کہ جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں صحافی حضرات بڑی تیزی سے پیدا ہوئے ہیں، ایک عدد کیمرہ گلے میں لٹکانا اور اخلاق سے گری ہوئی تحریریں لکھنے والوں کو صحافی کا درجہ دے دیا گیا ہے اور اس وقت اپنے اپنے نیٹ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں اور رپورٹر ہیں اور ہر صحافی کا دعویٰ ہے کہ وہ پیدائشی صحافی ہے اور اس سے بڑا کوئی صحافی جاپان میں موجود نہیں ہے ، کیونکہ جاپان میںمقیم کمیونٹی جو اس وقت مختلف سماجی، مذہبی اور سیاسی تنظیموں میں منقسم ہو کر رہ گئی ہے جنکے آپس میں اختلافات بھی اعلیٰ سطح پر ہیں انہی اختلافات کی بنا ء پر مختلف لوگ اپنے پسند کے نیٹو ںکے ساتھ وابستہ ہو کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، ایسے میں وہ لوگ جو پاکستان میں رہ کر ہماری کمیونٹی پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں وہ ہمارے اختلافات سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہتے ہیں، کوئی ویب سائٹ بنانے والے ہیں تو کوئی مضامین لکھ کر دینے والے ہیں اور ان میں کچھ جعلی صحافی بھی ہیں ، جنھیں جاپان میں کسی سیاسی یا مذہبی پارٹی میں کوئی مقام نہ ملا اور اپنی اپنی جماعتوں سے دھتکار دئے گئے تو انھوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لئے غلیظ اور اخلاق سوز ویب سائٹس اور ای میل ایڈریس بنا لئے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کے توہین آمیز کارٹون یا اخلاق سے گری ہوئی زبان میں لکھے ہوئے مضامین بھیجتے ہیں اور اس طرح اپنی نفسیاتی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں ، مگر یاد رکھیں کہ ایسے لوگ جنھیں کمیونٹی بہت اچھی طرح جانتی ہے جنھیں اپنی نجی محفلوں یا اچھی دعوتوں میں بھی مدعو نہیں کیا جاتا جو انکی طبیعت پر گراںگزرتا ہی، ان میں بکواس قسم کی شاعری کرنے والے چرسی، ہیروئنچی، بدکردار، بد شکل اورمنحوس شاعر ، گالم نگار ، رپورٹر،نام نہاد مذہبی اور جعلی سیاست دان اور نو دولتئے سرمایہ کار شامل ہیں ، جو اپنی سستی شہرت کے حصول کے لئے حرام کی کمائی لٹاتے ہیں اور اپنی تصاویر مخصوص
نیٹوں پر شائع کرواکر خود ہی خوش ہوتے رہتے ہیں۔اسی قبیل سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں نے اب مذہبی تنظیمیں اور مساجد کی طرف بھی رخ کرنا شروع کردیا ہے ، اپنی ناجائز طریقہ سے کمائی ہوئے دولت کو مساجد میں عطیات کے نام پر دے کر اپنا اثر و رسوخ بنانے کا رجحان تیزی پروان چڑھ رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایک چھوٹے پرفیکچر میں جہاں چند سو مسلمانوں کی تعداد ہے مگر وہاں پر آٹھ سے زیادہ مساجد وقائم ہو چکی ہیں اور ان میں چند ایک مساجد تو ایسی ہیں کہ جہاں ایک عام جانے سے بھی گھبراتا ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے کیونکہ عطیات کی صورت میں ان لوگوں نے مساجد کو اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے اور ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہا ان کی حمایت کرنے والے لوگ ہی وہاں نماز پڑھنے جا سکتے ہیں ، اسی طرح کا واقعہ گزشتہ دنوں مورخہ ۵ مئی کو بھی یوکی شہر میں واقع ایک مسجد میں پیش آیا جس میں ایک نام نہاد سیاست دان، بعزم خود دین کا ٹھیکیدار، غلیظ اور طرح ساز ویب سائٹ کا مالک رانا ابرار ولد ٠٠٠٠٠٠٠؟؟؟؟؟؟ نامی شخص ہے جس نے اس روز مسجد میں نشے کی حالت میں غل غپاڑہ کیا اور مسجد کی انتظامیہ ایک معزز رکن سے بد تمیزی بھی کی ، جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے ہمیں ایسے لوگوں سے فوری نجات کی ضرورت ہے جنکی وجہ سے جاپان کی پولیس، خفیہ ایجینسیاں اور سلامتی ایجینسیاں ہر مسلمان اور پاکستانی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، مساجد میں لڑائی جھگڑے اور دھینگا مشتی کسی طرح بھی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے
5 comments for “جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں صحافیوں اور رپورٹروں کی بڑھتی ہوئی تعداد۔ناصر ناکاگاوا”