ناصر ناکاگاوا کی تحریر پر ایک تبصره ، جس کے لیے تبصره نگار نے شائع کرنے کی خواهش کا اظہار کیا ہے
واہ بھئی واہ ۔ ویسے موصوف خود بھی تو جاپان میں صحافیوں کی اس نئی پود کی پیداوار ہیں۔
اب تک ایک اور صاحب تھے جو خود کو جاپان کا واحد صحافی سمجھتے تھے اور انہوں نے ناکاگاوا سمیت دوسروں کو صحافی تسلیم نہیں کیا ۔ اب ناکاگاوا بھی ان کی طرح صحافت کی ڈگریاں بانٹنے لگے ہیں ۔ کون صحافی ہے اور کون نہیں ہے ، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟؟؟ یہ ایک عظیم سوال ہے ۔
م ز صاحب، دوسرے کام کرتے ہوئے جزوقتی ویب سائٹ چلانے والوں کو صحافی تسلیم نہیں کرتے ۔حالانکہ وہ خود بھی ہاچی اوجی میں کارخانے میں مزدوری کرتے رہے ہیں ۔
اب ناکاگاوا صاحب دوسروں کو صحافی تسلیم نہیں کرتے ۔ حالنکہ وہ خود بھی تو یہی ہیں ۔ ایک کیمرہ (وہ بھی پروفیشنل نہیں بلکہ عام سا) گلے میں لٹکا کر ایک سائٹ بنا کر اس پر تصویریں لگانا اور غیرمعیاری تحریریں ۔ پھر ہر خبر کی ٹاپ کی تصویر میں وہ کود موجود۔ سفارت خانے وغیرہ کی تقریب وغیرہ میں تصویر کھینچنے کے لیے مسلسل اسٹیج کے گرد منڈلاتے ہوئے دوسروں کے لیے جاما۔ ڈھنگ کا کیمرہ نہ ہونے کی وجہ سے دور سے فوٹوگرافی نہیں کر سکتے ۔ ان سب حرکتوں کے ساتھ وہ خود صافی ہو سکتے ہیں تو دوسرے کیون نئیں ؟
ویسے صحافی ہونے کا معیار اگر جرنلزم میں ڈگری ہے تو جاپان میں کوئی پاکستانی صحافی نہیں ۔ اگر کسی بڑے میڈیا ادارے سے وابستگی معیار ہے ، تو پھر جیو کا نمائندہ اور این ایچ کے میں کام کرنے والے چار پانچ پاکستانی صحافی ہیں ، باقی کوئی نہیں ۔ ویسے زلزلے کے بعد جب دنیا بھر کے میڈیا کے نمائندے جاپان آکر خطرناک علاقوں میں رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے ، اس وقت جیو کے نمائندے جاپان سے بھاگ گئے تھے ۔ اور این ایچ میں کام کرنے والے پاکستانی ، خبروں کا ترجما کرتے ہیں اس لیے وہ بھی صحافی نہیں کہلا سکتے ۔
چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ جاپان میں پاکستانیوں یا سابق پاکستانیوں میں سے کوئی بھی اسلی تے وڈا صحافی نئیں ہے ۔ سب ناگاکاوا کی طرح پارٹ ٹائمر ہین۔ تو جب آپ خود بھی یہی ہیں تو دوسروں پر تنقید کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟
1 comment for “ناصر ناکاگاوا کی تحریر پر ایک تبصره ، ایک پاکستانی کے قلم سے”