11 مارچ کو آنے والے 9.0 شدت کے زلزلے کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی ٹوکیو شہر اور دوسرے اضلاع میں سے گزرنے والی سرگرم فالٹ لائنز کسی بھی وقت ایک تباہ کن زلزلہ پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ زلزلوں کے تجزیے کے سلسلے میں ایک اہم خدشہ دارالحکومت کے نیچے زلزلہ آنے کا ڈر ہے جو 1995 کے 7.3 شدت کے عظیم ہانشِن زلزلے سے بھی زیادہ شدید ہوسکتا ہے۔
حکومت کی مرکزی زلزلیاتی بحران کو روکنے کی کمیٹی نے ٹوکیو کے گرد شدت 7 کے 18 زلزلوں کے آنے کا حساب لگایا ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق شمالی ٹوکیو بے میں آنے والا ایسا ہی اندازاً 7.3 شدت کا زلزلہ گیارہ ہزار لوگوں کو ہلاک اور 850000 عمارتوں کو زمین بوس کرسکتا ہے۔ ایسا کوئی زلزلہ 1923 میں آنے والے 7.9 شدت کے عظیم زلزلے سے چھوٹا ہوگا تاہم دارالحکومت پر براہ راست ضرب زیادہ نقصان کا موجب بنے گی۔
11 مارچ کے عظیم مشرقی جاپان کے زلزلے کے بعد حکومتی اہلکار تاچیکاوا فالٹ پر توجہ دے رہے ہیں جو ھانو، سائیتاما صوبے سے فوچو، ٹوکیو تک پھیلا ہوا ہے۔ جولائی کے آخر تک حکومت کی زلزلیاتی بحران کو روکنے کی کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ ملک کی 106 فالٹ لائنز میں سے چار میں زلزلہ آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
تاچیکاوا فالٹ 33 کلومیٹر لمبا ہے، اور اس فالٹ کے اطراف میں آنے والے زلزلے کی شدت کا اندازہ 7.4 ہے۔ جاپان کے 7 درجوں والے زلزلہ پیما پر اس فالٹ کی وجہ سے ٹوکیو اور اس کے شہروں کونی تاچی، تاچی کاوا اور ماساشیموراما، اور مغربی سمت کے 23 زیریں وارڈوں میں شدت 6 یا اس سے طاقتور زلزلہ آسکتا ہے۔ حکومتی پیشن گوئی کے مطابق ایسے کسی زلزلے میں 6300 کے قریب لوگ مارے جائیں گے، خاص کر ٹوکیو میں۔
عظیم مشرقی جاپان کے زلزلے سے پہلے سرگرم جاپانی فالٹس کی بالائی طرف ایسا کوئی زلزلہ آنے کا امکان آئندہ 30 سالوں میں 0.5 سے 2 فیصد تک تھا۔ حکومتی اہلکار یہ حساب کتاب نہیں لگا سکے کہ حالیہ زلزلے کی وجہ سے زلزلہ آنے کے امکانات کتنے بڑھ گئے ہیں، تاہم انھیں اتنا یقین ہے کہ ایسا کوئی زلزلہ آنے کا امکان اب اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔
“اگر ہم قدم بہ قدم دیکھیں تو ہم خطرے کی طرف ایک قدم اور بڑھ چکے ہیں۔ لیکن ایک زلزلہ آنے سے پہلے کتنے قدم باقی ہیں، یہ ہمارے علم میں نہیں،” زلزلوں پر تحقیقی کمیٹی کے سربراہ اور جامعہ ٹوکیو میں پروفیسر امراتس ایبی کاتسویونکی نے کہا۔
شیمازاکی کونی ہیکو جو زلزلوں کی پیشن گوئی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، “زلزلہ کسی بھی وقت آسکتا ہے”۔
تاچی کاوا فالٹ پر سرگرمی کے ادوار میں اوسط وقفہ دس سے پندرہ ہزار سال کا ہے، اور اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ آخری بار زلزلہ تیرہ ہزار سے بیس ہزار سال پہلے آیا تھا۔
“ہم قریبًا ‘بلوغت’ کے قریب ہیں،” شیمازاکی نے کہا۔
لیکن سرگرم فالٹس ہی ہمارے لیے باعث فکر نہیں۔ زمین دوز خفیہ علاقوں میں خدشات بظاہر زیادہ ہیں۔
جامعہ ٹوکیو کے زلزیاتی تحقیقی مرکز کے اشیبا تاکیو نے زمین دوز چٹانوں پر آنے والے زلزلوں کی طاقت کی سمت اور ان کی شدت میں تبدیلی کا تجزیہ کیا ہے، انھوں نے یہ تجزیہ 1979 سے 2003 تک ٹوکیو اور اس کے گردونواح میں 30000 مقامات پر آنے والے زلزلوں کی بنیاد پر کیا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ سترہ ہزار جگہوں پر زلزلہ آنے کا امکان بڑھا ہے جبکہ دوسری سات ہزار جگہوں پر یہ امکان کم ہوا ہے۔
جاپانی دارالحکومت کے نیچے موجود علاقہ جہاں شمالی امریکی پلیٹ، فلپائنی بحری پلیٹ، اور بحرالکاہل کی پلیٹ ملتی ہیں، ہمیشہ سے زلزلوں کا مرکز قرار دیا جاتا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ 30 سالوں میں شدت سات کا زلزلہ آنے کا امکان 70 فیصد تک ہے، جس کے بارے میں زلزلوں پر تحقیق کے کمیشن نے 11 مارچ کے زلزلے سے بھی پہلے بتا دیا تھا۔ یہ اعدادوشمار شمالی کانتو علاقے میں پچھلے 120 سالوں میں آنے والے زلزلوں کے ڈیٹا پر مرتب کیے گئے ہیں، تاہم اس میں تاچی کاوا فالٹ شامل نہیں ہے۔
“اگر ایسا ہوتا ہے، تو ہماے نیچے کچھ بہت ہی ہیبت ناک وقوع پذیر ہوگا،” شیمازاکی نے خبردار کیا۔ “اگر ہم نے اب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں، تو کب کریں گے؟”
1 comment for “مشرقی جاپانی زلزلے کے بعد دارالحکومت میں ایک تباه کن زلزله آنے کے خدشات”