وزیر اعظم کان ناؤتو نے جمعے کو ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کے صدر کے عہدے سے اپنے استعفے کا اعلان کرکے اپنی معیاد کا باضابطہ خاتمہ کر دیا۔ “میں آج سے بطور پارٹی صدر استعفی دیتا ہوں۔” کان نے سینئیر پارٹی اہلکاروں کو بتایا، جی جی پریس نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔
کان کے استعفے نے پانچ برسوں میں ملک کے چھٹے وزیر اعظم کے آنے کی راہ ہموار کردی تاکہ مارچ کے بحرانوں سے نمٹنے کی راہ متعین کی جا سکے۔
کان کا استعفی 11 مارچ کے زلزلے، سونامی اور بعد کے ایٹمی بحران کے ساڑھے پانچ ماہ کے بعد آیا ہے، جن کی وجہ سے ان پر بحران سے اچھی طرح نمٹ نہ سکنے کے الزامات لگے تھے۔
جون میں عدم اعتماد کے ووٹ سے بچنے کے بعد کان نے کہا تھا کہ وہ اس شرط پر عہدہ چھوڑیں گے کہ تین کلیدی بل پاس کیے جائیں، دوسرے بجٹ کا بل، بجٹ کے فنڈ اکٹھے کرنے کا بل اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کا بل۔
آخری دو بل جمعے کو پاس کر دئیے گئے تھے۔
کان سے توقع ہے کہ وہ ڈی پی جے کے نئے پارٹی الیکشن منعقد ہوتے وقت اپنے حکومتی اور پارٹی عہدے سے باضابطہ استعفی دے دیں گے۔ چیف کینٹ سیکرٹری ایدانو یوکیو کے مطابق یہ انتخابات پیر کو منعقد ہونگے۔
اس کے بعد اگلے منگل کو ڈائٹ نئے قائد کو بطور وزیر اعظم ووٹ دے گی۔
کان کی جانشینی کے لیے 9 امیدواران میدان میں اتر سکتے ہیں جن میں مقبول سابقہ وزیر خارجہ مائی ہارا سیجی بھی شامل ہیں۔ وزیر خزانہ نوڈا یوشی ہیکو بھی ہفتے والے دن مہم شروع ہونے پر شاید اپنا بطور امیدوار پیش کریں۔
جس نے بھی الیکشن جیتا اسے جنگ عظیم کے بعد جاپان کی سب سے بڑی بحالی کی نگرانی کا پرمشقت کام کرنا ہوگا، جن میں 25 سال پرانے چرنوبل حادثے کے بعد دنیا کے بدترین ایٹمی بحران اور ین کی بڑھتی ہوئی قدر سے معیشت کو بچانے کے مسائل شامل ہیں۔
انھیں منقسم ڈائٹ کو بھی اکٹھا کرنا ہوگا اور مارکیٹ کا اعتماد جیتنا ہوگا کہ جاپان دنیا کے سب سے بڑے قرضے سے نمٹنے کے لیے درکار قانونی رکاوٹیں دور کرسکتا ہے۔
موڈیز ریٹنگ ایجنسی نے اس ہفتے جاپان کا درجہ کم کر کے جاپان کی نشستند گفتند برخاستند قسم کی قیادت کو اشد ضروری اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹ کے طور پر نشان زد کر دیا ہے۔
“طاقت کی تازہ ترین منتقلی دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دے گی کہ جاپانی قیادت متذبذب ہے،” ٹوکیو کی جامعہ میجی کے پروفیسر برائے سیاسیات نیشی کاوا شنجی نے کہتے ہوئے مزید اضافہ کیا کہ کان کے متبادل کو لمبے عرصے تک طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنا ہو گی۔
49 سالہ مائی ہارا جو مارچ کے بعد چندہ اکٹھا کرنے کے لیے وزیر خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے، شاید جنگ عظیم کے بعد جاپان کے کم عمر ترین وزیر اعظم بن جائیں۔ انھوں نے جاپان کی مالی مشکلات کے حل کے لیے ٹیکس بڑھانے کی بجائے شرح نمو بڑھانے کی وکالت کی ہے۔
نوڈا جنہوں نے حال ہی میں جنگی جرائم کے مجرموں کے بارے میں بیانات دئیے ہیں، نے ٹیکس بڑھانے کے بارے میں اپنے پرانے موقف میں نرمی پیدا کر لی ہے۔
مائی ہارا جیسے امیدواروں اور وزارت عظمی کے مابین پارٹی کا شہنشاہ گر اوزاوا ایکیرو کھڑا ہے جو ڈی پی جے کے سب سے بڑے سیاسی دھڑے کو کنٹرول کرتا ہے۔
اوزاوا، ایک چلتا پرزہ قسم کا کردار جو چندے کے اسکینڈل میں مقدمے کا سامنا کررہا ہے اور کان کے جانشین کو ووٹ دینے والے 398 میں سے قریباً 140 قانون سازوں کے گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔
پچھلے سال جون میں اقتدار سنبھالنے سے لے کر 64 سالہ کان نے کم عوامی حمایت کی ریٹنگ، ڈی پی جے کے اندر اختیارات کی جنگ اور منقسم ڈائٹ جہاں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی اپوزیشن نے کئی بل بلاک کردئیے، کے خلاف سخت جدوجہد کی ہے۔
ڈیڈلاک کان کی معیاد کا امتیازی نشان رہا اور ان سے ابتدائی توقعات ختم کرنے کی وجہ بھی بنا جو ان سے سیاسی پس منظر نہ رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعظم کے طور پر وابستہ تھیں، جب ڈی پی جے اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کر سکی۔
جاپان کا تہرا بحران جس نے 20,000 لوگوں کو ہلاک یا گمشدہ کردیا، بستیاں بہا دیں اور فوکوشیما جوہری بحران کو بھڑکایا، نے کان کو نئی زندگی عطا کی۔
لیکن ووٹروں کو مایوسی ہوئی جب ایک ماہ کے امن کے بعد دوبارہ کھینچا تانی اور لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا۔
الزامات کہ کان نے آفت پر ردعمل میں اناڑی پن دکھایا، حکام نے یہ اعتراف کرنے میں دیر کی کہ اٹیمی بحران ابتدائی اندازوں سے زیادہ سنگین تھا، شدید سے شدید تر ہوتے گئے۔
بوڑھے رہنما نے جاپان کا نام نہاد “ایٹمی ویلج” بنانے والی پاور کمپنیوں، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے خلاف ایٹمی توانائی سے پاک جاپان کی حمایت کر کے اور دشمن بنا لیے۔
پیغام عوامی جذبات کا ترجمان بنا، جس کے مطابق 70 فیصد عوام ایٹمی توانائی کو نکال باہر کردینا چاہتے تھے لیکن یہ ان کی لڑکھڑاتی مقبولیت کو پھر سے زندہ نہ کرسکا۔