ٹوکیو: پیر کو ہزاروں لوگوں نے “سایونارا ایٹمی توانائی” کے نعرے لگاتے اور بینر لہراتے ہوئے مرکزی ٹوکیو میں مارچ کیا ہے تاکہ فوکوشیما کے ایٹمی حادثے کے بعد حکومت سے ایٹمی توانائی چھوڑنے کا کہا جا سکے۔
اس مظاہرے سے پتا چلتا ہے کہ کیسے عرصہ دراز سے ایٹمی توانائی کی عادی جاپانی عوام 11 مارچ کے بحران سے متاثر ہوئی ہے، جب ایک سونامی کی وجہ سے فوکوشیما ڈائچی کمپلیکس کے تین ری ایکٹروں کے کور پگھل گئے تھے۔
اس بحران کی وجہ سے شمال مشرقی جاپان کے بڑے حصے پر تابکاری پھیل گئی جس سے پلانٹ کے قریب رہنے والے کوئی ایک لاکھ لوگوں کو پھلوں اور سبزیوں سے مچھلی اور پانی تک میں تابکاری کے بڑھتے خدشات کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑا۔
“تابکاری خوفناک ہے،” نامی نوجی نے کہا جو 43 سالہ ماں ہے اور اس قومی دن کے موقع پر اپنے 8 سے 14 سال کے چار بچوں کے ہمراہ احتجاج میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ “خوراک کے بارے میں بہت ہی غیریقینی کی کیفیت ہے، اور میں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ چاہتی ہوں”۔
پولیس کے اندازے کے مطابق مجمع 20,000 افراد تک کا تھا، جبکہ جلوس کی انتظامیہ نے اس تعداد سے تین گنا زیادہ لوگ بتائے ہیں۔
تابکاری کے خدشات کے علاوہ جاپان کی عوام اور کارپوریٹ اداروں کو سخت گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا پڑی چونکہ جاپان کے 54 میں سے 30 ایٹمی بجلی گھر گرمیوں میں جانچ پڑتال کے لیے بند تھے۔
وزیر اعظم یوشیکو نودا، جنہوں نے اس مہینے کے آغاز میں عہدہ سنبھالا ہے، نے کہا ہے کہ جاپان ان ری ایکٹروں کو پھر سے چلائے گا جو حفاظتی جانچ پر پورا اتریں گے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو طویل مدت میں ایٹمی توانائی پر اپنا انحصار کم کرنا ہوگا اور متبادل ذرائع توانائی کو تلاش کرنا ہو گا۔ انہوں نے کوئی مخصوص اہداف کے بارے میں بات نہیں کی۔
بحران سے پہلے زلزلے سے متاثرہ یہ ملک 30 فیصد بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل کرتا تھا۔ علاوہ ازیں جاپان ایک کم وسائل والا ملک ہے جس کی وجہ سے مناسب متبادل ذرائع توانائی کی تلاش کا کام مشکل اور وقت طلب ہو رہا ہے۔
ماری جوہ، ایک 64 سالہ خاتون جو ہیتاچی شہر سے دستخط کروانے کی مہم پر نکلی ہے تاکہ اپنے گھر کے قریب ہی واقع توکائی دائینی ایٹمی بجلی گھر کو بند کروا سکے، نے تسلیم کیا کہ ملک کے ذرائع توانائی کی منتقلی میں 20 سال تک لگ سکتے ہیں۔
“لیکن اگر حکومت اب راستہ متعین کرنے کے لیے فیصلہ کن انداز میں عمل نہیں کرے گی، تو ہم اسی جمود کا شکار رہیں گےِ. اس نے پیر کو کہا۔ “میں قدرتی توانائی استعمال کرنا چاہتی ہوں جیسے شمسی، ہوائی اور نامیاتی توانائی”۔
مارچ سے پہلے مظاہرین میجی پارک میں جمع ہوئے تا کہ مقررین کی تقاریر سن سکیں جن میں فوکوشیما سے ایک خاتون روئیکو موتو بھی شامل تھی، جس نے اپنا تعارف کرانے کے لیے “ہیباکوشا” کا لفظ استعمال کیا، جو کہ ہیرشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بموں سے بچ جانے والوں کا ایک جذباتی نام ہے۔
پلانٹ کے اطراف سے انخلا شدہ لوگ اب تک غیر یقینی کا شکار ہیں کہ اگر ممکن بھی ہو سکا تو کب وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل ہو سکیں گے۔
اے پی جی ایف کے، کی ایک رائے شماری کے مطابق 55 فیصد جاپانی ایٹمی ری ایکٹروں کی تعداد میں کمی چاہتے ہیں جبکہ 35 فیصد کے خیال میں وہ چاہیں گے کہ ان کی تعداد وہی رہے۔ چار فیصد تعداد میں اضافہ جبکہ 3 فیصد انہیں مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتے ہیں۔
اس رائے شماری، جس میں 29 جولائی سے 10 اگست کے دوران 1000 بالغوں سے رائے لی گئی، میں منفی و مثبت 3.8 پوائنٹس کے ایرر کا امکان تھا۔
مصنف کینزابورو او، جنہوں نے 1994 میں ادب کا نوبل انعام جیتااور عدم تشدد اور ایٹمی توانائی مخالف مقاصد کے لیے تحریک چلائی ہے، نے بھی مجمعے سے خطاب کیا۔ وہ اور موسیقار ریوچی ساکاموتو، جنہوں نے “دی لاسٹ ایمپرر” نامی فلم کے لیے موسیقی تشکیل دی تھی، اس مظاہرے کے سپورٹران میں شامل تھے۔