منیلا: جاپان نے فلپائنی سفارت کاروں سے بات چیت کی ہے تاکہ جنوبی چینی سمندر میں علاقائی تنازے کو حل کیا جا سکے، اور اس طرح چین کے ساتھ ایک نزاعی بحث میں قدم رکھ دیا ہے۔
فلپائن اور جاپان کے سفارت کاروں نے حال ہی میں ٹوکیو میں اس بات کو یقینی بنانے پر بات چیت کی تھی کہ تنازعات پرامن انداز میں اور عالمی قانون کے مطابق حل کیے جائیں۔ ایک فلپائنی اہلکار نے منگل کو بتایا کہ فلپائن نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک ایک “مشترکہ ورکنگ گروپ” قائم کریں جو باقاعدگی سے تنازعات اور دوسرے ایشیائی ممالک کے بحری خدشات سے نپٹے۔
اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی چونکہ اسے رپورٹروں سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
جاپان وسیع و عریض جنوبی چینی سمندر پر متازع دعووں میں فریق نہیں ہے اور اس کا بحث میں داخلہ بیجنگ کو غصہ دلانے کا موجب بن سکتا ہے۔ چین تیل کے ممکنہ ذخائر رکھنے والے تمام علاقے کا دعوی کرتا ہے، جس کا دعوی پانچ دوسرے ممالک یا علاقے بھی کرتے ہیں۔
چین نے تنازعات پر دوطرفہ مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے، ایک حربہ جو دوسرے ممالک جیسے امریکہ یا آسیان تنظیم کا منہ بند کر دے گا، جن سے فلپائن اور دوسرے تین مدعی ممالک کا تعلق بھی ہے۔
واشنگٹن، جس کا کہنا ہے کہ تنازعے کا پرامن حل اس کے مفاد میں ہے، نے مدعی ممالک کو مسئلے کے حل میں مدد کی پیشکش کی ہے لیکن بیجنگ نے اس کی سختی سے مخالفت کی ہے۔
جاپانی سفارت کار توشیناؤ اورابے نے منگل کو کہا کہ وسیع و عریض سمندر کو محفوظ اور تجارت کے لیے کھلا رکھنے کو یقینی بنانا جاپان کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاپانی اہلکار اپنے فلپائنی ہم منصبوں سے “نوٹس کا تبادلہ کریں گے” اور اندازہ لگائیں گے کہ وہ تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنے میں کیسے مدد کر سکتے ہیں۔
“بنیادی طور پر اس طرح کے معاملات متعلقہ فریقین کے مابین حل کیے جاتے ہیں” اورابے نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا۔ تاہم، انہوں نے مزید کہا، “چونکہ سمندر میں امن کا ایک جائز مفاد موجود ہے، اس لیے ہمیں بھی دلچسپی ہے کہ چیزیں کیسے آگے بڑھ رہی ہیں”۔
جاپانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ جاپان کی دوسری درآمدات و برآمدات کے علاوہ ، جاپانی صنعتوں کو طاقت مہیا کرنے والا قریباً 88 فیصد تیل مشرق وسطی سے جنوبی چینی سمندر کے راستے جاپان تک پہنچتا ہے۔
“ہم عالمی فریم ورک کے تحت ایک پرامن حل چاہتے ہیں،” اورابے نے کہا۔ “یہ بالکل واضح ہے کہ اس سمندر سے بہت سی ٹریفک گزرتی ہے۔”
جاپان اور فلپائن کے چین کے ساتھ الگ الگ علاقائی تنازعات ہیں۔ اورابے نے کہا کہ دونوں ممالک میں جنوبی چینی سمندر کے بارے میں کسی بھی بات چیت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بیجنگ کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں، جو کہ “ہم دونوں کا بہت اہم شراکت دار ہے”۔
“ہم چین کے خلاف اتحاد بنانے نہیں جا رہے،” اورابے نے کہا۔ “اس کا مقصد ہمارے مابین ہر ایک کے لیے جیت کا تعلق پیدا کرنا ہے۔”
فلپائنی صدر بینیگنو اکینو سوم نے اگلے ہفتے جاپان کا دورہ کرنا ہے تاہم یہ ابھی تک غیر واضح ہے کہ وہ جاپانی رہنماؤں، بشمول وزیراعظم یوشیکو نودا، سے بات چیت کے دوران علاقائی جھگڑوں کا مسئلہ اٹھائیں گے یا نہیں۔