واشنگٹن: امریکہ نے جمعرات کو کہا کہ وہ جاپان کی مستقبل کے ٹرانس پیسفک تجارتی معاہدے میں شمولیت کو خوش آمدید کہے گا، اس کے ساتھ ہی اس نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ دونوں اتحادیوں میں مضبوط تعلقات کے نئے مواقع دستیاب نہیں ہو رہے۔
جاپان ٹرانس پیسفک معاہدے، جو کہ امریکہ سمیت نو ممالک کے مابین مذاکراتی مراحل طے کرنے والا معاہدہ ہے، میں شمولیت کے لیے اندرونی بحث و مباحثہ کر رہا ہے اگرچہ حکومت کو کسانوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
امریکہ کے نائب سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے مشرقی ایشیا کرٹ کیمبل نے کہا کہ جاپان اور امریکہ کو تعاون کے نئے شعبے تلاش کرنے ہوں گے اور یہ کہ تجارتی معاہدہ ایک “ممکنہ موقع” ہو سکتا ہے۔
“ہمیں جاپان جیسے دوستوں کے ساتھ مکالمے، سیدھے سادھے سچے مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اکٹھے کام کرنے کے لیے شعبے تلاش کر سکیں”، کیمبل نے پیسفک اکنامک تعان کونسل کی ایک کانفرنس کو بتایا۔
امریکہ میں جاپان، جس نے حال ہی میں 2006 کے بعد چھٹا وزیراعظم چنا ہے، کے ساتھ اپنے اتحاد میں تحریک نہ ہونے کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بج اٹھی ہے، اگرچہ جاپان میں اس کے سونامی اور ایٹمی بحران پر فوری مدد کرنے کو بہت سے جاپانیوں نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا تھا۔
“میں پریشان ہوں کہ ہمیں جب بھی ملنا ہوتا ہے تو ہمارے پاس بڑے بڑے چیلنج ہوتے ہیں جن سے ہمیں نمٹنا ہوتا ہے، جیسے ایٹمی بحران کا چیلنج،” کیمبل نے کہا۔
“ہمیں شعبے تلاش کرنے کی ضرورت ہے، مثبت، وسعت پذیر اور مشغول رکھنے والے اقدامات کی، جہاں امریکہ اور جاپان نیا راستہ تعمیر کر سکیں، نہ صرف تزویراتی طور پر بلکہ معاشی طور پر بھی،” کیمبل نے کہا۔
امریکہ اور آٹھ دوسرے ممالک — آسٹریلیا، برونائی، چلی، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، پیرو، سنگاپور اور ویتنام — نومبر میں ہوائی میں ہونے والے ایشیا پیسفک سمٹ میں تجارت کے بارے میں معاہدے کے فریم ورک کا اعلان کرنے کی توقع کر رہے ہیں۔
صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کو ایک نئی طرح کے معاہدے کے طور پر فروغ دیا ہے جو مزدوروں کے حقوق اور ماحولیاتی معیارات کی پاسداری یقینی بناتا ہے، اگرچہ گلوبلائزیشن کے ناقدین نے اس کی تفصیلات مہیا نہ کیے جانے کی شکایت کی ہے۔
جاپان کی مرکزی یونین برائے زراعتی تعاون نے اس شراکت داری کے خلاف بڑی شد و مد سے مہم چلائی ہے اور کہا ہے کہ یہ معاہدہ جاپان جیسے ملک میں خوراک کی سیکیورٹی کم کردے گا جہاں کسان، خصوصاً چاول کے کسان، حکومت کی فیاضانہ مدد کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔