سائنسدانوں کی طرف سے پہلی بار “سوچنے” والے روبوٹ کی نقاب کشائی

ٹوکیو: انسانوں کی طرح تجربے سے سیکھنے والے اور نئے مسائل کو حل کرنے والے روبوٹ سائنس فکشن کا حصہ لگتے ہیں۔

لیکن ایک جاپانی محقق انہیں سائنسی حقیقت بنانے کے لیے کام کر رہا ہے، جہاں مشینیں، ایسی چیزیں استعمال کرکے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں، اپنے آپ کو وہ کام سکھا سکیں گی جنہیں کرنے کے لیے

انہیں ہدایات نہیں دی گئیں۔

دنیا میں پہلی بار ٹوکیو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اوسامو ہاسیگاوا نے ایسا نظام تیار کیا ہے جو روبوٹوں کو یہ صلاحیت دیتا ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں اور انٹرنیٹ پر

تلاش کریں، جس سے انہیں “سوچنے” کی صلاحیت ملتی ہے کہ مسئلے کو کیسے سب سے بہتر طور پر حل کیا جائے۔

“اکثر اچھے روبوٹس ان کاموں کو پروسیس اور سرانجام دینے میں اچھے ہوتے ہیں جن کے بارے میں انہیں پہلے سے ہدایات دی گئی ہوں، تاہم وہ ‘حقیقی دنیا’ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں کہ جس میں ہم انسان

رہتے ہیں،” انہوں نے اے ایف پی کو بتایا۔ “چناچہ ہمارا پراجیکٹ اصل میں روبوٹس اور اس حقیقی دنیا کے مابین ایک پل قائم کرنے کی ایک کوشش ہے۔”

سیلف آرگنائزنگ انٹرنیشنل نیورل نیٹ ورک یا سوئن، ایک الگورتھم ہے جو روبوٹس کو ان کا علم–جو وہ پہلے ہی جانتے ہیں–استعمال کرکے ان کاموں کے بارے میں سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے جس کی انہیں

ہدایت کی گئی ہو۔

سوئن ڈیٹا، جس کی اسے خود کی دی گئی معلومات کو ہدایات کے منظم مجموعے میں ڈھالنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے، حاصل کرنے کے لیے ماحول کا تجزیہ کرتا ہے۔

مثال کے طور پر سوئن پر مشتمل مشین کو بتائیں کہ اسے: “پانی پیش کرو”۔ پانی پیش کرنے کی خصوصی ہدایات کے بغیر روبوٹ افعال کی اس ترتیب کا کھوج لگا لیتا ہے جو اسے یہ کام کرنے کے لیے سرانجام دینے کی

ضرورت ہے۔

سوئن مشین اس وقت مدد مانگتی ہے جب کوئی کام اس کی استعداد سے باہر یا بہت نازک ہو، اور  سیکھی گئی تمام معلومات کو مستقبل میں کام کرنے کے لیے محفوط کر لیتی ہے۔

ایک الگ تجربے میں سوئن کو استعمال کیا جا رہا ہے کہ مشینوں کو انٹرنیٹ پر مخصوص معلومات تلاش کرنے میں مدد کرے جیسے کوئی چیز کیسی نظر آتی ہے، یا کسی خاص لفظ کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔

ہاسیگاوا کی ٹیم ان صلاحیتوں کو اکٹھا کرکے ایسی مشین بنانے کی کوشش کر رہی ہے جو دیا گیا کام سر انجام دینے کا طریقہ آنلائن تلاش کے ذریعے ڈھونڈ سکے۔ “مستقبل میں ہمیں امید ہے کہ یہ برطانیہ میں کسی

کمپیوٹر سے یہ پوچھ سکے گی کہ چائے کا کپ کیسے تیار کیا جائے اور پھر یہ کام جاپان میں سر انجام دے سکے گی،” انہوں نے کہا۔

انسانوں کی طرح یہ نظام بھی “شور” یا غیراہم معلومات، جن سے  دوسرے روبوٹس کنفیوز کر ہو سکتے ہوں، کو الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہاسیگاوا نے کہا کہ یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے لوگ ٹرین پر سفر کے دوران ساتھی سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے اردگرد کے شور کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور کسی چیز کو مختلف قسم کی روشنی یا مختلف زاویہ

نگاہ سے پہچان سکتے ہیں۔

“انسانی دماغ یہ اتنی صفائی اور خوبخود انداز میں کرتا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایسا کر بھی رہے ہیں،” انہوں نے کہا۔

اسی طرح یہ مشین بھی انٹرنیٹ پر ملنے والے نتائج میں سے غیرمتعلقہ نتائج کو الگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ “انٹرنیٹ پر معلومات کی بہت بڑی مقدار موجود ہے، تاہم فی الحال صرف انسان ہی ان معلومات کا

فائدہ اٹھا رہے ہیں،” انہوں نے کہا۔ “یہ روبوٹ اپنا دماغ براہ راست انٹرنیٹ سے منسلک کر سکتا ہے۔”

ہاسیگاوا کو امید ہے کہ سوئن کو شاید ایک دن عملی طور پر استعمال کیا جاسکے، جیسا کہ پبلک مانیٹرز اور حادثوں کی اطلاعات کا خودبخود تجزیہ کر کے ٹریفک جاموں کے دوران ٹریفک کی بتیوں کو کنٹرول

کرنا۔

وہ زلزلے کی پیشگی اطلاع کے نظاموں میں بھی اس کے ممکنہ اطلاق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں سوئن سے لیس مشین پورے جاپان میں واقع حساسیوں سے معلومات حاصل کرنے کے قابل ہو گی اور ایسی حرکات

کا سراغ لگا سکے گی جو اہم ثابت ہو سکیں۔

گھریلو سیٹنگ میں سیکھ سکنے والا روبوٹ ایک مصروف گھرانے میں انمول ثابت ہو سکتا ہے۔

“ہم روبوٹ کو ڈنر ٹیبل پر سویا ساس لانے کو کہہ سکتے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ پر تلاش کرکے سویا ساس کے بارے میں جان سکتا ہے اور کچن سے سویا ساس کو پہچان سکتا ہے،” ہاسیگاوا نے کہا۔

تاہم پروفیسر خبردار کرتے ہیں کہ ایسی وجوہات موجود ہیں کہ ہمیں سیکھ سکنے والے روبوٹس کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔

ہمیں کمپیوٹروں کو کس قسم کے کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟ اور یہ ممکن ہے کہ وہ ہمارے خلاف ہو جائیں، جیسا کہ سٹینلے کوبرک کی افسانوی فلم “2001: آ سپیس اوڈیسی” میں ہوتا ہے۔

“کچن کی چھری کارآمد چیز ہے۔ تاہم یہ ہتھیار بھی بن سکتی ہے،” انہوں نے کہا۔

ابھی اگرچہ ہاسیگاوا اور ان کی ٹیم اپنی ایجاد کے ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن وہ لوگوں کو اس کی اخلاقی حدود سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔

“ہم امید کر رہے ہیں کہ لوگوں کے مختلف طبقہ ہائے فکر اس ٹیکنالوجی پر بحث و مباحثہ کریں گے، کہ اسے کہاں استعمال کرنا چاہیے اور کہاں نہیں۔ ٹیکنالوجی ناقابل یقین رفتار سے ترقی کر رہی ہے،” انہوں نے کہا۔

“میں لوگوں کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس پہلے ہی اس قسم کی ٹیکنالوجی ہے۔ ہم مختلف طبقوں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے توقع کرتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے پختہ ہونے تک

وہ اس بات پر بحث و مباحثہ کریں کہ اسے کیسے استعمال کیا جائے۔”

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.