جاپان کو خدشہ تھا کہ آفٹر شاکس ایٹمی بجلی گھر کو نقصان پہنچائیں گے، رپورٹس

ٹوکیو: ایک نئی جاری ہونے والی دستاویز کے مطابق، فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر سے سونامی ٹکرانے کے تین ماہ بعد تک جاپان کو خدشہ تھا کہ زلزلے کے آفٹرشاکس اس کے فیول ذخیرہ کرنے والے تالاب کو مزید نقصان پہنچا کر اس میں موجود راڈز کو پگھلا کر چند ہی گھنٹوں میں تابکاری پھیلا دیں گے۔

جاپان کی ایٹمی توانائی کی حفاظتی تنظیم نے کہا کہ اس نے ایک سیمولیشن چلا کر دیکھا تھا کہ پلانٹ نمبر چار کی ری ایکٹر بلڈنگ میں واقع کوئی 1500 زیادہ تر استعمال شدہ فیول راڈز متعلقہ پول کو آفٹرشاکس سے نقصان پہنچنے اور ٹھنڈا کرنے والے پانی کے اخراج کے بعد دو گھنٹوں میں ہی ٹوٹنا شروع ہو سکتے تھے۔ فیول راڈز آٹھ گھنٹوں میں پگھلنا شروع ہو سکتے تھے، تنظیم نے اپنی 30 جون کی ایک رپورٹ میں بتایا جو جمعے کو شائع کی گئی۔

اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ متعلقہ پول قریباً چار ماہ تک خطرے کی زد میں رہا حتی کہ پلانٹ آپریٹر کمپنی نے جولائی میں امدادی تعمیر مکمل کی۔ ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی نے اس سے پہلے کہا تھا کہ عمارت بڑے آفٹر شاکس کو کسی قسم کی امدادی تعمیر کے بغیر سہہ سکتی ہے، تاہم بعد میں اس نے ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان اور پول کے حصے سے پانی کے اخراج کو تسلیم کرتے ہوئے مرمت کرائی۔

11 مارچ کے زلزلے و سونامی نے تین ری ایکٹروں میں پگھلاؤ کا عمل شروع کر دیا تھا۔ دھماکوں نے بھی عمارتوں کو نقصان پہنچایا، جبکہ یونٹ نمبر 4 ان کے ساتھ واقع تھا۔

یہ سمولیشن ایسی صورت حال پر مبنی تھی کہ یونٹ نمبر 4 کے استعمال شدہ فیول راڈز کے پول، جو کہ عمارت کی سب سے اوپر والی منزل میں واقع تھا، میں پانی ختم ہو گیا۔ یونٹ نمبر 4 کا پول زیادہ خطرے کی زد میں خیال کیا جاتا تھا چونکہ اس میں دوسرے تین پولز کی نسبت زیادہ فیول راڈز ذخیرہ تھے، چونکہ اس میں ری ایکٹر کے کور سے نکالے جانے والے راڈز بھی رکھے گئے تھے، جس میں نئے پرزے فٹ کیے جا رہے تھے۔

رپورٹس کے مطابق حکومتی امداد پر چلنے والی جے این ای ایس نے کہا کہ آفٹرشاکس کی وجہ سے پڑنے والی اضافی دراڑوں کی وجہ سے پول سے پانی کا اخراج راڈز کے گرم ہو جانے کی وجہ بنتا۔ ان کی کیسنگ ٹوٹ جاتیں اور وہ دو گھنٹوں کے اندر تابکاری خارج کرنا شروع کر دیتے۔ اس نے کہا کہ ہر راڈ کے اندر واقع ایندھنی ٹکڑے 7.7 گھنٹوں میں ہی 2800 سیلسئیس (5000 فارن ہائیٹ) پر پگھلنا شروع ہو جاتے۔

یہ رپورٹ سینکڑوں صفحات پر مشتمل ان دستاویزات کا حصہ تھی جن میں بحران کے شروع میں  حادثے کی مختلف صورتوں کو مدنظر رکھ کر چلائی گئی سیمولیشن کے نتائج تھے۔

پلانٹ کے کارکن اب بھی تابکاری کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں جو ابھی تک پلانٹ سے خارج ہو رہی ہے، اگرچہ اس کی مقدار پہلے سے کم ہے۔

ٹیپکو نے جمعے کو کہا کہ یونٹ نمبر 1، جو سب سے زیادہ متاثرہ عمارتوں میں سے ایک ہے، کا بیرونی خول اب ائیرٹائٹ پولیسٹر سے بنا ہوا ہے جو تابکاری کے ذرات کو عمارت کے اندر رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ دوسری عمارتوں کے لیے بھی ایسے غلافوں کا منصوبہ ہے۔

حکومتی اہلکار بھی پلانٹ کے گرد موجود علاقے کے بارے میں بڑے پیمانے پر تابکاری سے صفائی کی کوششیں کر رہے ہیں، جہاں سے دسیوں ہزار لوگوں کو انخلا کرنا پڑا تھا۔

ٹوکیو کے اندر اور اطرافی علاقوں میں تابکاری کے “سرگرم علاقوں” کی دریافت نے بھی لوگوں میں خوف پیدا کیا ہے، جہاں لوگ باقاعدگی سے اپنے آس پاس کے علاقے کو تابکاری کے لیے چیک کرتے ہیں۔ بیشتر کیسوں میں تابکاری کی مقدار عالمی طور پر تسلیم شدہ سالانہ حد سے نیچے تھی، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ معیار حادثے سے پہلے جاپان کی مقرر کردہ حد سے زیادہ ہے اور حکومت کو تابکاری سے صفائی کی کوششوں کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.