(پہلی قسط)
حسین خاں ۔ ٹوکیو
مندرجہ بالا ویب پر امتیاز صاحب کی الوداعی پارٹی کے ویڈیوکی پہلی قسط YouTube پر دیکھی جاسکتی ہے اور میرے سارے ویڈیو YouTube پر مندرجہ ذیل ویب پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
روپنگی کے قریب واقع پاکستانی ریستوراں’’صدیق‘‘ کی ایک شاخ میں پاکستان ایسوسی ایشن کی جانب سے ہردلعزیزسفارتکار جناب امتیا ز احمدصاحب کی الوداعی پارٹی رکھی گئی۔ ریستوراں کی گنجائش کے مطابق تقریباً 50 افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ بڑے عرصہ کے بعد اور بہت انتظار کے بعد پاکستان ایسوسی ایشن کا حرکت میں آنا ایک خوشگوار عمل تھا۔امید کہ ایسو سی ایشن کی اس طرح کی سرگرمیوں سے کمیونٹی کی بڑھتی ہوئی مایوسیوں میں کمی آئے گی۔
سینئیر پاکستانی تقریباً سارے ہی شریک تھے ۔ماضی میں بھی اور ابھی بھی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سینئیر پاکستانی مل کر کمیونٹی کے جس گروپ یا ایسو سی ایشن کی حمایت کرتے ہیں ، ساری کمیونٹی میں وہی ایک ایسوسی ایشن ہی تسلیم کی جاتی ہی۔دوسرا کوئی گروہ اپنے آپ کو کتنا ہی ایسوسی ایشن کا نام د ے لے ایسے گروہ کے باہمی چند دوست احباب کے علاوہ کوئی اس کی طرف نہ توجہ دیتا ہے اور نہ ہی ان کی کسی بات پر کوئی کان دھرتا ہی۔سب لوگ جانتے ہیں کہ ایک نام نہاد ایسوسی ایشن نے ناچ گانے کے پروگراموں کی پر زور حمایت کے ذریعہ کمیونٹی کے اخلاق خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔چاروں مقامات پر یہ پروگرام جس بری طرح فلاپ ہوئے ہیںاس کابھی سب ہی کو علم ہی۔ اس لیے موجودہ ایسوسی ایشن کے ِکنگ میکرing-Maker جناب الطاف بٹ صاحب نے اس بات کی پوری کوشش کہ کی سارے سینئیر پاکستانیوں کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھائیں،ان کی ساری شکایات دور کریں اوران کا اتنا خیال رکھیں اور اتنا عزّت و احترام کریں کہ یہ سینئیر گروپ سارے کا سارا ہی ان کا ہمیشہ اسیر رہی۔
مشتاق قریشی صاحب کے با موقع قطعات نے محفل کو تازگی بخشی۔عبدا لرّحمٰن صدیقی صاحب نے کھانی، کپڑے اور مکان کی تنخواہ پر رکھے گئے ایک ملازم کا پُر لطف لطیفہ سنا کر حاضرین کو محظوظ کیا۔شاہدچودھری صاحب اور رئیس صدیقی صاحب نے امتیاز صاحب نے کس طرح کمیونٹی کی خدمت کی ، اس سلسلہ میں ا پنے ماضی کے تجربات کا ذکر کیا۔ سلیم الرّحمٰن صاحب نے ایک حدیث کا ذکر کیا کہ آدمی کے نام کا اثر اس کے کردار پر پڑتا ہی۔ انھوں نے ’امتیاز‘ نام کی مناسبت سے کچھ علمی باتیں بتائیں۔
اصغر حسین صاحب نے میری تقریر کے دوران ایک جملہ میں ایک ایسا چٹکلہ چھوڑ دیا، جس کی تفصیل بیان کرنے میں میں کچھ تکلف کررہا تھا۔ میں اس واقعہ کی تفصیل میں گئے بغیر امتیاز صاحب کی اس خوبی کا ذکر کر رہا تھا کہ انھوں نے اپنے اخلاق اور ملنساری کا کمیونٹی پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور ماضی کے کالے انگریزوں کی طرح کبھی افسر شاہی کی اکڑ دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اصغر حسین صاحب ماضی کے ایک سفارت کار کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی طرف صرف ایک جملہ کا ایک چٹکلہ چھوڑدیاکہ’’لیکن آپ کے ایک خط نے اسے سیدھا کردیا‘‘ ۔
یہ ایک ایسے سفارت کار کا ذکر تھا جو مشرقِ وسطٰیٰ کے ملک سے تازہ تازہ جاپان جیسے ایک ترقی یافتہ ملک میں آیا تھا ، وہ جتنا پڑھ لکھ کر افسر بنا تھا‘اس سے بہت ز یادہ پڑھے لکھے پاکستانی ،جاپان،یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافہ ممالک میں رہتے ہیں۔لیکن مشرقِ وسطٰیٰ کے پاکستانی مزدور طبقہ نے اس کے دماغ میں افسر شاہی کا خنّاس بھردیا تھا۔اس نے جاپان آتے ہی اس وقت کے پاکستان ایسو سی ایشن کے صدر رئیس صدیقی صاحب کے ساتھ کچھ بد تمیزی سے بات کی تھی۔میں اس زمانہ میں نے پاکستان ایسو سی ایشن کی صدارت چھوڑ کر چیرمین کا عہدہ قبول کرلیا تھا۔ رئیس صاحب نے جب مجھے اس کالے انگریز کی بد تمیزی سے بات کرنے والی کہانی بتا ئی تو میں نے اس افسر کے خلاف غصّہ میں آکر انگریزی میں ایک ایسا سخت لکھا کہ جس کو پڑھ کر اس وقت کے سفیر صاحب نے بتایا کہ ان کو 3 دن تک نیند نہیں آئی۔انھوں نے مجھ سے اور رئیس صدیقی صاحب سے سفارت خانہ میں ان سے دو بدو گفتگو کے دوران یہ اپیل کی کہ ہم دونوں مذہبی آدمی ہیں اور یہ کہ اسلام میں لوگوں کو ان کی غلطیوں پر معاف کردینابھی ایک بہت بڑا نیک عمل ہی۔ میں نے جواب دیا کہ آپ نے درست فرمایا لیکن اسلام نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ فرعونوں کا سر بھی توڑا جائی۔ایک دو کوڑی کا سفارت خانہ کا افسر اپنے آپ کو اتنا بڑا فرعون سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کمیونٹی کے ایک نمائندہ کے ساتھ بدتمیزی سے بات کرتا ہی۔اس کو پاکستان کمیونٹی کی خدمت کے لیے یہاں بھیجا گیا ہی۔خدمت کے جذبہ کے بجائے کیاوہ یہاں اپنی اکڑ دکھانے کے لیے جاپان آیا ہے ؟اسے معلوم ہونا چاہئیے کہ کمیونٹی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نہ صرف اس سے بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں اوریہ کہ اس جیسی0 افسروںکو اپنا گھریلو ملازم بنا کر بھی رکھ سکتے ہیں۔
پھر سفیر صاحب نے بتایا کہ آپ کے اس خط سے اس بیچارہ کا سارا کیرئر خراب ہوجائے گا۔ہم نے کہا کہ اگر وہ ایسی حرکتیں کرے گاتو ایسی ہی سزاء کا مستحق ہی۔
میں جس زمانہ میں پاکستان ایسو سی ایشن کا صدر تھا،میری ایک سفیر صاحب سے بھی جھڑپ ہوگئی تھی اور مجھے یہ کہنا پڑگیا تھا کہ ہم تو آپ کو اپنے نوکر کا نوکر سمجھتے ہیں۔حکومت عوام کی خدمت کے لیے ہے اورآپ حکومت کے ملازم ہیں۔اس کے بعد وہ سفیر صاحب بھی سیدھے ہوگئے تھے اور ہمارے یعنی ایسو سی ایشن کے سارے جائزمطالبات کو خوش دِلی سے مانتے رہے ۔
t امتیاز صاحب چونکہ اس سے پہلے 2, 3 بار جاپان آچکے ہیں ۔انہیں اس طرح کے ماضی کے سارے واقعات کا اچھی طرح سے علم ہی۔جاپان کی کمیونٹی اور اس کی لیڈرشپ کے مزاج کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ملنساری، اور اکڑفوں کے بجائے سادگی کا جو نمونہ پیش کیا ہے ، اس سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ اپنی اگلی پوسٹ یعنی وزارتِ خارجہ کے ڈایئرکٹر جنرل جیسی اہم سینئیرپوسٹ پر رہتے ہوے نئے اور اپنے سے جونئیر سفارت کاروں کا ایک ٹریننگ کورس ایسا بنائیں کہ ان کی تربیت ہوجائے کہ وہ باہر کے ملکوں اور خصوصاً جاپان،یورپ اور امریکہ جیسے ملکو ں میں جاکر اکڑفوںدکھانے کے بجائے اپنے آپ کو Low Profile میں رکھنا سیکھیں۔
میں نے اپنی تقریر میں اور کیا کچھ کہا، اس کا ذکر ویڈیو کی اس پہلی قسط میں نہیں ہی۔ اس لیے اس کی تفصیل ویڈیو کی دوسری قسط کے ساتھ پیش کروں گا۔ انشاء اللہ۔
(جاری ہی)