ٹوکیو: جاپانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جاپانی کیمرہ ساز کمپنی اولمپس پر چھایا ہوا بڑی رقوم بطور مشیرانہ فیس ادا کرنے کا اسکینڈل ایک کارپوریٹ جاپان کی امیج پر داغ لگا رہا ہے۔
فائنانشل ٹائمز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں وزیراعظم یوشیکو نودا نے اس معاملے پر وضاحت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ انہیں فکرمندی ہے کہ اسے ملک کے مجموعی کاروباری کلچر کے مسئلے کا حصہ گردانا جائے گا۔
“جو چیز مجھے پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اس وقت مسئلہ بنے گا جب لوگ اس ایک جاپانی کمپنی کےمسئلے کو لے کر اسے سارے جاپان پر لاگو کر دیں گے اور کہیں گے کہ جاپان ایک ایسا ملک ہے جو سرمایہ داری نظام کے قوانین (کی پیروی نہیں کرتا)،” انہوں نے اخبار کو بتایا، اور مزید کہا: “جاپانی معاشرہ اس قسم کا معاشرہ نہیں ہے۔”
نودا کے خیالات اس وقت سامنے آئے ہیں جب پالیسی سازوں میں اس اسکینڈل پر فکرمندی بڑھ رہی ہے، جس نے جاپانی کمپنیوں کے بورڈز کے معاہدہ کرنے کے اکثر و بیشتر غیرشفاف طریقہ کار پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔
اولمپس اپنے برطانوی چیف ایگزیکٹو مائیکل ووڈ فورڈ کو 14 اکتوبر سے برخاست کرنے کے بعد بحران کی زد میں ہے، جس کا کہنا ہے کہ اسے اس لیے نکالا گیا کہ اس نے 2006 اور 2008 میں کیے جانے والے کئی ایک معاہدوں کی ادائیگیوں پر سوالات اٹھائے تھے۔
ووڈ فورڈ کی طرف سے نشان زد کیے جانے والے چار معاہدوں میں سے ایک برطانوی طبی سامان بنانیوالے ادارے گائرس گروپ کی 2008 میں 1.92 بلین ڈالر کی خریداری اور 687 ملین ڈالر تھے جن کے بارے میں اولمپس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ مشیر کو معاہدہ کروانے کی فیس میں ادا کیے گئے۔
ووڈ فورڈ کو صدر تعینات کیے جانے کے صرف چھ ماہ بعد نکال دیا گیا اور دو ہفتوں کے بعد اسے چیف ایگزیکٹو بھی نامزد کر دیا گیا۔
کمپنیوں میں کام کا 30 سالہ تجربہ رکھنے والے اولمپس کے پہلے غیر جاپانی صدر اور چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ اسے اس لیے ہٹایا گیا چونکہ اس نے چئیرمین تسویوشی کیکوکاوا کو لکھا اور انتظامی بدعنوانی کا حوالے دے کر ترغیب دی کہ ادائیگیوں کے معاملے پر مستعفی ہو جائے۔
کیکوکاوا نے ووڈ فورڈ کی بات نہ مانی، لیکن میڈیا تفتیش کا دباؤ اور شئیر ہولڈرز کی پریشانی بڑھتی گئی جس کی وجہ سے اس نے بدھ کو استعفی دے دیا۔
نودا کے یہ خیالات دائیو پیپر، ایک ٹشو ساز کمپنی جو ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج میں پہلے سیکشن میں درج ہے، کے اس انکشاف کے چند دن بعد ہی سامنے آئے ہیں جب اس نے اپنے سابقہ چئیرمین کی طرف سے کمپنی فنڈ کے 10 بلین ین جوئے میں استعمال کرنے پر تفتیش کا نتیجہ ظاہر کیا۔
جاپانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق موتوتاکا ایکاوا، جس کے دادا نے 1943 میں کمپنی کی بنیاد رکھی تھی، نے لاس ویگاس اور ماکو کے جوئے خانوں، اور اعلی ترین ہوٹلوں کے پرتعیش سوئٹس میں رہائش پر کمپنی کا کیش استعمال کیا تھا۔
کمپنی کی تفتیش نے پتا لگایا کہ ایکاوا کے ذمے 26 مختلف قرضے تھے، اور فنڈز میں سے 6 بلین ین کی رقم ابھی تک واپس اکاؤنٹس میں جمع نہیں کروائی گئی تھی۔
جمعے کو دائیو پیپر نے کہا کہ وہ سابقہ چئیرمین کے خلاف ممکنہ فوجداری مقدمے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
1 comment for “اولمپس اسکینڈل جاپان کے امیج کے لیے اچھا نہیں: نودا”