اوساکا: اوساکا کے ڈسٹرکٹ کورٹ نے پیر کو ایک آدمی کو پھانسی کی سزا سنائی جس نے 2009 میں ایک پچینکو پارلر میں پانچ آدمیوں کو آگ لگا کر ہلاک کر دیا تھا۔
چار گاہک اور ایک ملازم اس وقت مر گئے جب سانوؤ تاکامی نے اوساکا کے کونوہانا وارڈ میں 5 جولائی، 2009 کو ایک پچینکو پارلر کو آگ لگا دی۔
اس مقدمے میں یہ سوال بھی زیرغور تھا کہ آیا پھانسی کی سزا آئین کی دفعہ 36، جو ظالمانہ سزا دینے سے منع کرتا ہے، کے خلاف ہے یا نہیں۔ تاہم، فاضل جج ماکوتو وادا نے فیصلہ دیا کہ پھانسی کی سزا آئین کی خلاف ورزی نہیں۔
جی جی پریس کے مطابق، وادا نے عدالت کو بتایا کہ تاکامی کو موت کی سزا دی جانی چاہیے چونکہ اس کا کام “انتہائی ظالمانہ” تھا۔
روزنامہ آشی کے مطابق، وادا نے فیصلہ دیا کہ مدعا علیہ اپنے فعل کی ذمہ داری برداشت کرنے کے لیے پوری طرح ذہنی طور پر صحت مند تھا۔
این ایچ کے کی رپورٹ کے مطابق، وکلائے صفائی کا کہنا تھا کہ جرم سرزد ہونے کے وقت تاکامی کو صحیح اور غلط پہچاننے کی صلاحیت نہیں تھی چونکہ وہ ذہنی بیماری کا شکار تھا۔
یہ سزا ایک جیوری نے تجویز کی جس میں چھ عام لوگ اور تین پیشہ ور منصفین شامل تھے۔ جاپان میں سزائے موت پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔
یہ 60 یومیہ مقدمہ مئی 2009 میں عام آدمیوں کو جیوری میں بٹھانے کا نظام متعارف کروانے کے بعد طویل ترین تھا، جس میں مدعا علیہ کے ساتھیوں کی جیوری کو فیصلہ سنانے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
روایتی طور پر جاپان سزائے موت کو ایک سے زیادہ قتل کے لیے مخصوص رکھتا ہے، اور اس سال جنوری میں 100 سے زائد مجرم کال کوٹھڑیوں میں سزا کے منتظر تھے۔
تاہم، سزائے موت پر عملدرآمد کی تعداد ستمبر 2009 سے ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کے برسراقتدار آنے کے بعد نمایاں حد تک کم ہو گئی ہے۔
صرف ایک موقع پر جولائی 2010 میں سزائے موت پر اس وقت عملددرآمد کیا گیا جب اس وقت کی وزیر انصاف کیکو چیبا نے، سزائے موت کی مخالف ہونے کے باوجود، دو قاتلوں کی سزائے موت کی منظوری دی اور سزا کا بذات خود معائنہ کیا۔
اس کے بعد انہوں نے سزائے موت پر نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا اور پراسرار پھانسی گھر کو پہلی بار میڈیا کے لیے کھول دیا، تاکہ اس پر بحث و مباحثہ کیا جا سکے۔
1 comment for “پچینکو پارلر میں آتشزدگی سے قتل کے کیس میں آدمی کو سزائے موت”