ٹوکیو: اسکینڈل زدہ جاپانی کیمرہ ساز کمپنی اولمپس نے منگل کو ایک پینل کے شرکا کے ناموں اعلان کیا جس کا کام کمپنی کے گلے کی ہڈی بنے خریداری کے معاہدوں پر کی جانے والی بڑی بڑی ادائیگیوں کے غیرقانونی ہونے کے الزامات کی تحقیق ہو گا۔
فرم نے کہا کہ چھ رکنی کمیٹی جس کی سربراہ سابقہ سپریم کورٹ جج تاتسوؤ کائیناکا کر رہے ہیں، میں چار وکلا اور ایک سند یافتہ اکاؤنٹٹنٹ بھی شامل ہو گا۔
وہ 2006 سے 2008 کے مابین اولمپس کی چار خریداریوں کی تفتیش کریں گے، جن میں 1.92 بلین ڈالر سے برطانوی طبی سامان بنانے والی کمپنی گائرس گروپ کا معاہدہ بھی شامل ہے، جس میں اولمپس نے سیامن آئی لینڈز میں واقع ایک غیرمعروف مالیاتی مشیر کو 687 ملین ڈالر ادا کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
اس کے علاوہ جانچ کی زد میں تین چھوٹی جاپانی کمپنیوں کی خریداری بھی شامل ہے جو اس کے آلات بنانے کے مرکزی کاروبار سے متعلق نہیں تھیں، جنہیں 2006 سے 2008 کے مابین 73.49 بلین ین (موجودہ 966 ملین ڈالر) میں خریدا گیا۔ کمپنی نے ایک سال کے بعد ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی۔
اولمپس نے ایک بیان میں کہا کہ پینل کے اراکین کو بورڈ کے دو آزاد ممبران نے چنا ہے جو معاہدے ہونے کے وقت ان عہدوں پر موجود نہیں تھے۔
اولمپس کے بیان کے مطابق، پینل کے ممبران کی کمپنی کے اثرورسوخ سے آزادی بالکل یقینی ہے۔”
بیان کے مطابق، یہ پینل معاہدوں کی جانچ کرے گا اور پتا لگائے گا کہ آیا “کوئی غیرمنصفانہ یا غیر مناسب افعال یا غیرمناسب انتظامی فیصلے کیے گئے”۔
پینل کے سربراہ کائیناکا نے کہا کہ وہ پینل کی امانت داری کے بارے میں پریقین ہیں، جو ان کے مطابق رپورٹ پیش کرنے میں ایک مہینہ لے گا۔
“میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس ایسے اراکین ہیں جو مکمل آزادی اور غیرجانبداری کو یقینی بنائیں گے، جس کی وجہ سے میں نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے،” انہوں نے ڈاؤ جونز نیوز وائر کو بتایا۔ “یہ مشکل، لیکن اہم کام ہو گا۔”
کائیناکا نے کہا کہ کمیٹی نے منگل کی صبح ملاقات کی تھی اور دوبارہ اس ہفتے کے آخر میں ملاقات کرے گی، انہوں نے مزید کہا کہ کچھ اراکین نے پہلے ہی کمپنی کی دستاویزات کا معائنہ شروع کر دیا ہے۔
اولمپس اپنے برطانوی چیف ایگزیکٹو مائیکل ووڈ فورڈ کو 14 اکتوبر سے برخاست کرنے کے بعد بحران کی زد میں ہے، جس کا کہنا ہے کہ اسے اس لیے نکالا گیا کہ اس نے کئی ایک معاہدوں کی ادائیگیوں پر سوالات اٹھائے تھے۔
ووڈ فورڈ کو صدر تعینات کیے جانے کے صرف چھ ماہ بعد نکال دیا گیا اور دو ہفتوں کے بعد اسے چیف ایگزیکٹو بھی نامزد کر دیا گیا۔
کمپنیوں میں کام کا 30 سالہ تجربہ رکھنے والے اولمپس کے پہلے غیر جاپانی صدر اور چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ اسے اس لیے ہٹایا گیا چونکہ اس نے چئیرمین تسویوشی کیکوکاوا کو لکھا اور انتظامی بدعنوانی کا حوالے دے کر ترغیب دی کہ ادائیگیوں کے معاملے پر مستعفی ہو جائے۔
کیکوکاوا نے ووڈ فورڈ کی بات نہ مانی، لیکن میڈیا تفتیش کا دباؤ اور شئیر ہولڈرز کی پریشانی بڑھتی گئی جس کی وجہ سے اس نے بدھ کو استعفی دے دیا۔
اس اسکینڈل نے اس ہفتے وزیر اعظم یوشیکو نودا کو مداخلت پر مجبور کیا جنہوں نے کہا کہ انہیں فکرمندی ہے کہ اسے ملک کے مجموعی کاروباری کلچر کے مسئلے کا حصہ گردانا جائے گا۔
“جو چیز مجھے پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اس وقت مسئلہ بنے گا جب لوگ اس ایک جاپانی کمپنی کےمسئلے کو لے کر اسے سارے جاپان پر لاگو کر دیں گے اور کہیں گے کہ جاپان ایک ایسا ملک ہے جو سرمایہ داری نظام کے قوانین (کی پیروی نہیں کرتا)،” انہوں نے اخبار کو بتایا، اور مزید کہا: “جاپانی معاشرہ اس قسم کا معاشرہ نہیں ہے۔”