واشنگٹن: اہم امریکی قانون سازوں نے جاپان کو مستقبل کے ٹرانس پیسفک تجارتی معاہدے میں شامل کرنے پر احتیاط سے کام لینے پر زور دیا ہے، اور سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا یہ معاہدہ ملک کی تاریخی طور پر بند منڈیوں کو دوسروں کے لیے کھول سکے گا یا نہیں۔
“جاپان نے عرصہ دراز سے اپنی مقامی مارکیٹ کو بامعنی مقابلے بازی سے پناہ مہیا کیے رکھی ہے،” کانگریس اور سینٹ کی کمیٹ برائے تجارتی امور کے چوٹی کے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ممبران نے امریکی تجارتی نمائندے رون کرک کو خط میں لکھا۔
امریکی مذاکرات کاروں کو جانچنا ہو گا کہ “کیا جاپان آزاد تجارت کے امریکی معاہدے کے لیے درکار اونچے معیار کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کیا یہ شمولیت ہماری کمپنیوں، کارکنوں اور کسانوں کے لیے تاریخی طور پر بند جاپانی منڈیاں کھول دے گی،” انہوں نے کہا۔
جاپان ٹرانس پیسفک معاہدے، جو کہ امریکہ سمیت نو ممالک کے مابین مذاکراتی مراحل طے کرنے والا معاہدہ ہے، میں شمولیت کے لیے اندرونی بحث و مباحثہ کر رہا ہے تاہم حکومت کو کسانوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
“گاڑیاں، کئی زرعتی مصنوعات بشمول گائے کا گوشت، انشورنس، ادویات اور طبی آلات کے ساتھ ساتھ امریکی مال و خدمات کی ایک بڑی تعداد کو جاپانی منڈیوں تک رسائی کے لیے پابندیوں کا سامنا ہے،” قانون سازوں نے لکھا۔
“ان میں سے بہت سی پابندیاں جاپانی معیشت کی انتہائی گہرائی میں اتری ہوئی ہیں، اور آج بھی تجارتی قوانین اور برسوں کے دوطرفہ تعلقات کے باوجود قائم ہیں،” انہوں نے کہا۔
قانون سازوں نے امید ظاہر کی کہ ٹی پی پی کے تحت نئے قوانین “ان میں سے کچھ خدشات” کو ختم کرنے کے لیے “مناسب طور پر مضبوط” ہوں گے تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ جاپان کی مذاکرات میں شمولیت “ڈرامائی طور پر نئی جہتیں اور پیچیدیگیاں پیدا کرے گی”۔
ریاست کی مالیاتی کمیٹی کے چئیرمین میکش باؤکس، جو کہ ایک ڈیموکریٹ ہیں، اور انہیں کے ہم پلہ ری پبلکن چارلس گریزلے، اور ان کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی کمیٹی کے چئیرمین اور ریپبلکن رکن چئیر مین ڈیو کیمپ، اور ان کے ہم پلہ ڈیموکریٹ سانڈز لیون نے خط پر دستخط کیے۔