ٹوکیو: آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹائن لیگارڈ نے ہفتے کو کہا کہ جاپان کو اپنے پہاڑ جیسے قرضے کو ترجیحی بنیادوں پر کم کرنا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ جاپان کی حالیہ کرنسی مارکیٹوں میں یکطرفہ مداخلتیں جی سیون کی “روح کے مطابق” تھیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ نے کہا کہ جاپان کی “ترجیحات میں بحالی کے اخراجات پر فوری عملددرآمد، اور حکومتی قرضے کو کم کرنے کے لیے مضبوط وسط مدتی منصوبے کو اختیار کرنا” شامل ہونا چاہیے۔
ٹوکیو میں، لیگارڈ جاپانی وزیر خزانہ جوز ازومی، بینک آف جاپان کے گورنر ماساکی شیریکاوا اور مالیاتی خدمات کے وزیر شوزابورو جیمی سے ملیں جس کے بعد وہ ہوائی میں منعقدہ ایشیا پیسفک اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہو گئیں۔
عرصہ دراز سے جاری معاشی زوال کو روکنے کےلیے حکومت کی طرف سے قرضہ لے کر معیشت چلانے کے اقدامات نے جاپان کے قرضے کو صنعتی دنیا کا سب سے بڑا قرضہ بنا دیا ہے، جو اس کی جی ڈی پی کا قریباً 200 فیصد بنتا ہے۔
حکومتی اخراجات کا بڑا حصہ تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی کا سوشل سیکیورٹی سسٹم ہڑپ کر جاتا ہے، جبکہ گہری ہوتی تفریط زر اور ناتواں معیشت نے قانون سازوں کے لیے قرضہ لینے پر پابندی لگانا مزید مشکل بنایا ہے۔
سابقہ فرانسیسی وزیر خزانہ نے خبردار کیا کہ اگر یوروزون کا قرضوں کا بحران مزید سنگین ہوتا ہے، تو ایشیا تجارتی اور مالیاتی تصاوم کی وجہ سے اس کا اثر محسوس کرے گا۔
اس صورت حال نے عالمی مارکیٹوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کی وجہ سے جاپانی کرنسی ین میں سرمایہ کاری بڑھی ہے، جسے ان ابتر حالات میں محفوظ کرنسی خیال کیا جاتا ہے، اور اس سرمایہ کاری کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈالر کے مقابلے میں ین کی قدر ریکارڈ بلندی تک جبکہ یورو کے مقابلے میں پچھلے دس برسوں کی بلند ترین قدر تک پہنچ گئی ہے۔
ٹوکیو کو کرنسی کی زیادہ قدر کم کرنے کے لیے اندرونی دباؤ کا سامنا ہے، جو برآمد کنندگان کا منافع کم کردیتا ہے اور مقامی طور پر بنی ہوئی مصنوعات کی قیمت بیرون ملک بڑھا دیتا ہے، اور اس سے خدشات بڑھ گئے کہ فرمیں اپنی پیداوار بیرون ملک منتقل کر دیں گی جبکہ ملک ابھی 11 مارچ کے زلزلے و سونامی سے بحال ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
جاپان نے ایک سال کے دوران چوتھی مرتبہ اکتوبر میں ین فروخت کرکے مداخلت کا آغااز کیا تھا تا کہ کرنسی کی قدر کم کی جا سکے۔
اس یکطرفہ اقدام کی وجہ سے حیرت بھرے سوالات بھی اٹھے چونکہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے گروپ جی 20 کے مابین مشترکہ طور پر طے پانے والی کرنسی پالیسی موجود نہیں۔
تاہم، لینگارڈ نے کہا کہ یہ مداخلت جی سیون کی مالیاتی ابتری روکنے کی کوششوں “کی روح کے مطابق” تھی۔
“متفقہ فیصلے کے ذریعے اقدام مداخلت کرنے کا بہترین طریقہ ہے،” انہوں نے کہا۔
تاہم انہوں نے مزید کہا: “جاپانی مداخلت اس نقطہ نظر سے کی گئی کہ منڈیوں میں انتشار اور بڑھی ہوئی ابتری کو روکا جا سکے اور یہ بہت حد تک جی سیون کی طرف سے ایسے معاملات پر جاری کردہ اعلامیوں اور اعلانات کی روح کے مطابق ہے۔”
وہ دورہ جاپان اس وقت کر رہی ہیں جب یونان اور اٹلی سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں جس نے یوروزون کے قرضوں پر خدشات بڑھا دئیے ہیں کہ یہ عالمی معیشت کو دوہری مندی میں دھکیل سکتا ہے۔
اس سے پہلے انہوں نے روس اور چین کا دورہ کیا، اور بیجنگ میں انہوں نے ایتھنز اور روم میں مزید سیاسی شفافیت کا مطالبہ کیا جبکہ اٹلی میں قرضوں کے اخراجات کی مقدار حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے ایک اور یوروزون ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہو چلا تھا۔
“آئی ایم ایف پر ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ دونوں ممالک میں سیاسی استحکام اور واضح پالیسی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے،” انہوں نے کہا۔
دو متحارب پارٹیوں میں تاریخی پاور شئیرنگ معاہدے کے بعد یونان کی نئی قومی حکومت جس کی قیادت لوکاس پاپاڈیموس کر رہے ہیں، نے جمعے کو دفاتر سنبھالے تا کہ قرضہ زدہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
“میں لوکاس پاپاڈیموس کی تعیناتی کا خیرمقدم کرتی ہوں، جنہیں میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں اور جن کے ساتھ مل کر ہم (اگلے بیل آؤٹ پیکج پر) پھر سے کام کا آغاز کر سکیں گے،” لیگارڈ نے کہا۔
پارلیمان میں نئی حکومت کی تصدیق کا عمل پیر سے شروع ہو گا اور اس کا پہلا کام یورپین یونین اور آئی ایم ایف کو 2010 کے بیل آؤٹ معاہدے کی آٹھ بلین ڈالر کی اگلی قسط جاری کرنے پر رضامند کرنا ہو گا، جو 15 دسمبر سے پہلے درکار ہے ورنہ حکومتی خزانہ خالی ہو جائے گا۔
جمعے کو ہی اٹلی کے ایوان بالا نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اصلاحاتی پیکج کی منظوری دی، جس کی بعد وزیراعظم سیلویو برلسکونی کے متوقع استعفے پر منڈیوں میں پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی ہوئی۔
“جہاں تک اٹلی کی بات ہے تو میں خوش ہوں کہ سینٹ نے اصلاحاتی منصوبے کی منظوری دے دی ہے جو پارلیمان میں جمع کروایا گیا تھا،” لیگارڈ نے ہفتے کو ایوان زیریں میں ہونے والی متوقع ووٹنگ سے پہلے کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ برلسکونی نے “عہدہ چھوڑنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا اور میرا خیال ہے کہ نئی تعیناتی چند ہی دنوں میں کر دی جائے گی، جو شفافیت اور سیاسی ساکھ کی علامت ہو گی، جس کی صورت حال بہتر کرنے کے لیے اشد ضرورت ہے”۔
لیگارڈ نے یہ بھی کہا کہ وہ جاپان کی طرف سے ایشیا پیسفک آزاد تجارتی معاہدے کے مذاکرات میں شمولیت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتی ہیں، “جو ملک کی مستقبل کی نمو اور مقابلے بازی کی صلاحیت کے لیے بہت اہم اضافہ ثابت ہو گا”۔
جاپان امریکہ کے بعد آئی ایم ایف کا دوسرا سب سے بڑا حصے دار ہے۔
1 comment for “جاپان کو قرضہ کم کرنے کو ترجیح دینا چاہیے: آئی ایم ایف چیف”