حکومت نے فوکوشیما کے ایک حصے سے چاولوں کی فروخت پر پابندی لگا دی

ٹوکیو: حکومت نے جمعرات کو تباہ حال فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کے قریب اگائے گئے چاولوں کے نمونوں میں تابکاری کی مقدار قانونی حد سے اچھی خاصی اوپر  پائے جانے پر ان چاولوں پر پابندی لگا دی۔

یہ دریافت ڈرے ہوئے صارفین کو اور تشویش میں مبتلا کر دے گی، جو ماضی میں ٹھوس نیک نامی رکھنے والی مقامی مصنوعات کے محفوظ ہونے پر بھی  سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

فوکوشیما کے حکام کا کہنا ہے کہ تباہ حال ایٹمی بجلی گھر کے قریب اگائے جانے والے چاول میں 630 بیکرل فی کلوگرام کے حساب سے تابکار سیزیم کی مقدار پائی گئی۔ حکومت کی حفاظتی حد 500 بیکرل فی کلوگرام ہے۔

وزارت زرات کے ایک اہلکار کے مطابق، چیف کیبنٹ سیکرٹری اوسامو فوجیمورا نے فوکوشیما کے گورنر یوہےئی ساتو کو حکم دیا کہ اونامی، جہاں سے نمونے حاصل کیے گئے تھے، سے چاولوں کی کھیپوں پر پابندی لگا دے۔

“جب تک علاقے میں پیدا ہونے والے چاولوں کے پاک ہونے کا یقین نہیں ہو جاتا تب تک پابندی نہیں اٹھائی جائے گی،” اہلکار نے مزید کہا کہ یہ پابندی 154 فارموں کو متاثر کرے گی جنہوں نے اس سال 192 ٹن چاول پیدا کیا۔

یہ 11 مارچ کے زلزلے و سونامی سے تباہ ہونے والے فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر، جس سے ہوا، سمندر اور غذائی زنجیر میں تابکاری کا اخراج ہوا، کے بعد لگائی جانے والی ایسی پہلی پابندی ہے۔

اگرچہ قدرتی آفت نے بیس ہزار سے زیادہ جانوں کا خراج وصول کیا، لیکن ایٹمی ایمرجنسی میں کوئی براہ راست موت واقع نہیں ہوئی، لیکن اس نے ٹیکنالوجی کی نیک نامی کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے جس پر پہلے جاپان اپنی بجلی کی ضروریات کے ایک تہائی کے لیے انحصار کرتا تھا۔

یہ آلودہ نمونے اونامی کے قریب ایک فارم سے حاصل کیے گئے تھے جو تباہ حال پلانٹ سے 57 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔

مقامی اہلکاروں کے مطابق اس فارم پر پیدا کیے گئے 840 کلوگرام چاولوں میں سے ذرا سی مقدار بھی اس سال مقامی مارکیٹوں میں فروخت کے لیے نہیں لائی گئی۔

سانحے سے پہلے پیدا ہونے والے چاولوں کی قیمت گرمیوں میں کچھ عرصے کے لیے بڑھ گئی تھی چونکہ لوگوں نے اس سال کی فصل تابکاری سے آلودہ ہونے کے ڈر سے چاول خرید کر ذخیرہ کر لیے۔ تاہم تب سے قیمتیں مستحکم ہیں۔

عالمی محققین کی ایک ٹیم نے اس ہفتے کہا کہ علاقے سے لیے گئے مٹی کے نمونوں میں تابکار سیزیم کی بھاری مقدار پائی جانے کی وجہ سے اشیائے خوردنی “انتہائی خراب معیار” کی ہوں گی۔

انٹرنیشنل اکیڈمی اور سائنسز جرنل کی پروسیڈنگز میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اردگرد کے علاقوں میں بھی کاشتکاری تابکاری سے متاثر ہو سکتی ہے۔

بحران سامنے آنے کے بعد متاثرہ علاقوں سے زرعی مصنوعات کی کئی ایک کھیپوں کو روک لیا گیا اور جو مصنوعات سرکاری کنٹرول میں نہ بھی آ سکیں، جاپانی صارفین نے ممکنہ طبی خطرات کی وجہ سے ان میں دلچسپی نہیں لی۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.