ٹوکیو سب وے میں سیرین گیس حملے کے 16 سال بعد اوم کا مقدمہ ختم

ٹوکیو: جاپان کی عدالت نے پیر کو 1995 میں ٹوکیو کے سب وے میں ہونے والے اعصابی گیس کے حملوں میں سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف کی جانے والی اپیل کو مسترد کر دیا ہے، جس کے بعد اوم سپریم ٹرتھ قیامتی فرقے کے 13 اراکین کا مقدر پھانسی کا پھندہ رہ گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے نے سیچی ایندو، جو کئی ایک حملوں بشمول مسافروں پر ہونے والے ملکی تاریخ کے بدترین اجتماعی قتل کے حملے، جس میں 13 افراد مارے گئے تھے، کے الزام میں گرفتار کیے جانے والا فرقے کے آخری رکن ہے، کی جان بخشی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔

“ہم نے ندامت کا کوئی لفظ نہ سنا، اور نہ ہی معافی کا کوئی لفظ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ “اوم” اصل میں کیا ہے۔” شیزوئے تاکاہاشی نے کہا، جن کا سب وے میں کام کرنے والا خاوند اس وقت ہلاک ہو گیا تھا جب نازیوں کی تیار کردہ سیرین گیس مسافروں کے آنے جانے کے رش والے اوقات میں سب وے پر چھوڑ دی گئی۔

جاپان کی حکومت کے مرکز کے اتنے قریب اسٹیشنوں پر ہونے والے ان حملوں نے ہول پیدا کر دیا جس سے پورے ٹوکیو کا میٹرو سسٹم ہل کر رہ گیا۔

مرنے والوں کے علاوہ، جو ہزاروں لوگ زخمی ہوئے، ان میں سے کچھ گیس، جو اعصابی نظام کو تباہ کر دیتی ہے، کی قربت یا اس میں سانس لینے کی وجہ سے سنگین اور مستقل نوعیت کے مسائل کا شکار ہوئے۔

سیرین، جسے صدام حسین نے شمالی عراق میں کردوں کے خلاف استعمال کیا تھا، ہی کو اس فرقے نے وسطی جاپان کے شہر ماتسوموتو میں ایک سال پہلے اپنے حملے میں استعمال کیا تھا۔ اس میں آٹھ لوگ جاں بحق ہوئے۔

“اوم” کی خودساختہ حکومت میں ایندو “صحت اور بہبود کا وزیر” تھا اور اس نے سیرین وی ایکس گیس، اینتھریکس اور دوسرے جراثیموں اور زہروں کے مطالعے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

این ایچ کے کی رپوٹ کے مطابق، صدر منصف سیجی کانیتسوکی نے کہا کہ ایندو نے “سیرین گیس کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ اس کا استعمال کیا ہوگا”۔

ان جرائم میں گرفتار 189 “اوم” فرقے کے اراکین کے خلاف پیر کا فیصلہ عدالتی کاروائی کا آخری مرحلہ تھا۔ اس فرقے کے تین اراکین ابھی تک بھگوڑے ہیں۔

اس قیامتی فرقے کو 1984 میں شوکو آساہارا نے قائم کیا، جو قریباً نابینا یوگی تھا اور اس نے اپنی مقبولیت کے زمانے میں دس ہزار سے زیادہ پیروکار اکٹھے کر لیے تھے۔

آساہارا نے بدھ مت اور ہندومت کی تعلیمات میں نام نہاد الہام اور کشف کا تڑکا لگا کر اپنی تعلیمات کا پرچار کیا، اور سیرین گیس کے بارے میں ایک واہمہ پیدا کر لیا، اور اس وسوسے کا شکار ہو گیا کہ اس کے دشمن اس پر سیرین گیس سے حملہ کریں گے۔

آساہارا کو ٹوکیو کے حملوں کے دو ماہ بعد ماؤنٹ فوجی کے قریب ایک جگہ سے حراست میں لے لیا گیا تھا، اور بعد میں اسے دو درجن سے زائد لوگوں کی ہلاکت کی وجہ بننے والے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرا کر 2004 میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

اس گُرو نے کرشمہ، پراسراریت اور خام طاقت استعمال کر کے اپنے چیلوں، جن میں جاپان کے اعلی ترین اداروں کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور انجینئر بھی شامل تھے، کے ساتھ مل کر جاپان کی تاریخ کے سب سے زیادہ چونکا دینے والے جرائم کا ارتکاب کیا۔

ایندو، جس نےاعلی شہر ت کے حامل ادارے جامعہ کیوتو سے وائرس اور جینیاتی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی، ان سائنسدانوں میں سے ایک تھا جنہوں نے سیرین گیس کی تیاری میں مدد دی۔

شہ سرخیوں میں جگہ پانے والے ٹوکیو سیرین حملے کے علاوہ “اوم” کے پیروکاروں نے ان شخصیات کو بھی قتل کیا جن کے بارے میں آساہارا کا خیال تھا کہ وہ اس کے راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں، انہیں میں فرقے کی مخالف ایک وکیل لڑکی اور اس کا اپنا خاندان شامل تھا۔

فرقے کے تیرہ کے تیرہ رکن بشمول آساہارا کال کوٹھڑیوں میں سزا کے منتظر ہیں۔

پولیس کی بھرپور توجہ کے باوجود یہ فرقہ جاپان میں قانونی حیثیت رکھتا ہے، جہاں آئین مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران مذاہب پر ہونے والی سختیاں اب بھی تازہ ہیں، جب ریاست کا سرکاری مذہب شینتو ازم تھا۔

“اوم” فرقے نے اپنے آپ کو عبرانی کے پہلے حرف “الف” کی رعایت سے نیا نام دے لیا ہے، اور آساہارا کو معزول کر دیا ہے۔ لیکن حکام اسے سخت نگرانی میں رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ بنیاد پرست پیروکار اب بھی آساہارا کا احترام کرتے ہیں۔

حکومت نے اپریل میں پارلیمان کو رپورٹ میں کہا تھا کہ جاپان میں اب بھی اس فرقے کے کوئی 1500 پیروکار جبکہ 200 کے قریب روس میں موجود ہیں۔

“الف” نے پیر کو سزائے موت ملتوی کرنے کی اپیل جاری کی، اور کہا کہ “اوم” کے تین رکن اب بھی بھگوڑے ہیں۔

جاپانی قانون کے مطابق، وزیر انصاف اس وقت تک سزائے موت کے احکام جاری نہیں کر سکتا جب تک تمام شرکائے جرم کی سزائیں سنائی نہ جا چکی ہوں۔

“ہمیں خطرہ ہے کہ اگر (حکام) “اوم” کے واقعات کا خاتمہ جلدی جلدی سزائے موت دے کر کرنا چاہتے ہیں تو یہ جاپانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، خاص طور پر کہ جب انہوں نے رشی آساہارا کی رحم کی اپیل مقدمہ چلائے بغیر مسترد کر دی ہے،” گروپ نے ایک بیان میں کہا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.