بیجنگ: چینی حکومت نے کہا ہے کہ چین کے طیارہ بردار بحری جہاز نے صفائی ستھرائی اور جانچ پڑتال کے بعد منگل سے اپنی دوسری آزمائش شروع کی ہے، جبکہ یہ آزمائش بحری حدود پر موجود تنازعات کے انتہائی تناؤ بھرے وقت میں ہو رہی ہے۔
1300 میٹر لمبا جہاز، جو سابقہ سوویت یونین کے جہاز واریاگ کو مرمت کر کے بنایا گیا ہے، اگست میں پانچ دنوں کی آزمائشی مدت سے گزارا گیا جس سے چین کی بڑھتی بحری دسترس کے بارے میں عالمی خدشات کو ہوا ملی۔
“چین کا طیارہ بردار بھری جہاز اگست میں اپنی پہلی آزمائشی مدت کامیابی سے مکمل کر کے مزید دیکھ بھال اور جانچ کے لیے پلان کے مطابق شپ یارڈ واپس پہنچ گیا،” وزارت دفاع نے کہا تھا۔ “اس پر کام کیا جا رہا ہے اور اسے دوبارہ 29 نومبر کو واپس سمندر میں بھیجا جائے گا تاکہ متعلقہ سائنسی اور تحقیقاتی تجربات کیے جا سکیں”۔
یہ اعلان ایشیا پیسفک کے علاقے میں بحری تنازعات پر بڑھتے تناؤ کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔
چین مشرقی چینی سمندر اور جنوبی چینی سمندر پر اپنے دعووں میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید جارح واقع ہوا ہے، جسے وہ اپنا سمندری علاقہ قرار دیتا ہے تاہم جہاں دوسری ایشائی قوموں کی طرف سے بھی ایسے ہی دعوے کیے گئے ہیں۔
پچھلے ہفتے بیجنگ نے کہا کہ وہ بحر الکاہل میں “معمول” کی بحری مشقیں کرے گا، جو باراک اوباما کی طرف سے امریکہ کو بحر الکاہل کی طاقت کے طور پر منوانے کی بڑی سفارتی مہم کے فوراً بعد ہو رہی ہیں۔
بیجنگ نے اس سال صرف پرانے سوویت جہاز کی مرمت کرنے کی تصدیق کی تھی اور تب سے بار بار زور دیتا آیا ہے کہ طیارہ بردار جہاز اس کے ہمسایوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں اور وہ اسے بنیادی طور پر تربیت اور تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔
تاہم اگست کی بحری آزمائشوں کو علاقائی طاقتوں جاپان اور امریکہ کی طرف سے خدشات بھری نگاہوں سے دیکھا گیا، جنہوں نے بیجنگ پر زور دیا کہ وہ ایک طیارہ بردار جہاز رکھنے کی ضرورت کی وضاحت کرے۔
پیپلز لبریشن آرمی، جو دنیا کی سب سے بڑی فعال فوج ہے، اپنے دفاعی پروگراموں کے بار ے میں انتہائی کم گو اور راز رکھنے والی تنظیم ہے، جسے ملک کی دوگنی چوگنی ترقی کرتی معیشت کی بدولت فوجی بجٹ کی ایک بڑی اور ہر سال بڑھتی مقدار کی سہولت ملتی ہے۔
بیجنگ نے جدید میزائلوں، سیٹلائٹس، سائبر ہتھیاروں اور لڑاکا جیٹ طیاروں کی اپنی دوڑ پر اٹھنے والے خدشات کو کئی بار دور کرنے کی کوشش کی ہے اور زور دیا ہے کہ اس کی پالیسی “اصل میں دفاعی” ہے۔
اس سال کے شروع میں چین نے اعلان کیا تھا کہ 2011 میں فوجی اخراجات 12.7 فیصد اضافے سے 601.1 بلین یوآن (91.7 بلین ڈالر) ہو جائیں گے۔
ٹوکیو میں وزیر اعظم نودا نے کہا تھا کہ وہ چین کی فوجی تیاری کے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں، اور انہوں نے اپنے عظیم الجثہ پڑوسی کو “عالمی برادری کے ذمہ دار شہری” کا کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔
نودا نے پارلیمان کو بتایا کہ جاپان اگلے سال سفارتی تعلقات کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پر چین کے ساتھ تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کرنا چاہتا ہے۔
” مجھے ان کی قومی دفاعی طاقت میں اضافے پر تشویش ہے جس میں شفافیت کا فقدان ہے، اور ان کی بڑھتی بحری سرگرمیوں پر بھی تشویش ہے”، نودا نے کہا۔
جاپان نے قریبی پانیوں اور اوقیانوس میں چین کی بڑھتی بحری سرگرمیوں اور چین کے تیزی سے بڑھتے فوجی بجٹ، جسے ٹوکیو “غیرشفافیت” قرار دیتا ہے، پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
چین نے اس پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور اس کی وزارت خارجہ نے اس پرچے کو “غیر ذمہ دار” قرار دینے کے ساتھ ساتھ بیجنگ کی طرف سے فوج کو جدید خطور پر استوار کرنے کی کوششوں کو دفاعی قرار دیا تھا۔
دونوں ممالک کے مابین قریبی معاشی تعلقات کے باوجود، جاپان اور چین کے مابین تعلقات اکثر کدورت بھرے رہے ہیں، جنہیں چین میں بہت سے لوگ ٹوکیو کی ناکامی خیال کرتے ہیں کہ وہ جنگی جرائم کے اپنے ریکارڈ کو مناسب طریقے سے سدھار نہ سکا۔
ستمبر 2010 میں تعلقات اس وقت حالیہ برسوں کی کم ترین سطح پر آگئے تھے جب ٹوکیو نے متازعہ پانیوں میں جاپانی کوسٹ گارڈ کی گشتی کشتی کے ساتھ ٹکرانے والی ایک چینی ماہی گیر کشتی کے کپتان کو حراست میں لے لیا تھا۔ اسے بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔