ٹوکیو: اوسامو تاماکی جاپان کے ان چند چاول کے کسانوں میں سے ایک ہے جو ایشیا پیسفک آزاد تجارتی معاہدے کو ہاتھ کا چھالا بنی صنعت کے لیے پیغام مرگ کی بجائے نئے مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
“ٹی پی پی (ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ) دنیا بھر میں پھیلنے کا بہت بڑا موقع فراہم کرے گا،” 32 سالہ تاماکی نے کہا جو پہلے ہی تائیوان کو چاول برآمد کر چکا ہے اور اور اب امریکہ اور ہانگ کانگ میں نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔
“ٹی پی پی شاید مقامی کسانوں کو نقصان پہنچائے، بشمول مجھے،” تاماکی نے کہا، جو نی گاتا میں چاول کاٹتا ہے، جو کہ ملک کے چاول پیدا کرنے والے بڑے صوبوں میں سے ایک ہے اور ٹوکیو کے شمال میں واقع ہے۔
اس نے کہا کہ یہ اس شعبے کے لیے انتہائی ضروری اصلاحات کی گھنٹی بھی ثابت ہو سکتا ہے، جو فراخ دلانہ سبسڈی اور منہ کھلوا دینے کی حد تک حیرت انگیز حفاظت کے مزے اٹھاتا آیا ہے۔
“ہماری اندرونی طرف توجہ رکھنے والی پالیسیوں نے صرف مقابلے بازی میں زوال اور صنعت پر آنے والے جمود کو تیزی فراہم کی ہے،” اس نے اے ایف پی کو بتایا۔
تاماکی چاول کے کسانوں کی انتہائی اقلیت کا نمائندہ ہے، جو اس مہینے وزیراعطم یوشیکو نودا کی طرف سے ٹی پی پی مذاکرات میں شرکت کے منصوبے کے اعلان کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔
بیشتر کسانوں کا خیال ہے کہ آزاد تجارت کا معاہدہ ان کے لیے بری خبر ثابت ہو گا۔ درآمدی چاول پر عائد قریباً 800 فیصد ٹیرف کے ذریعے عالمی تجارت سے الگ تھلگ کیے جانے کے بعد اس کی وجہ جاننا بھی مشکل نہیں۔
“میں سمجھتا ہوں کہ عالمگیریت ایک ایسی چیز ہے جس کا سامنا ہم سب کو کرنا چاہیے، لیکن میں پراعتماد نہیں ہوں، ” کوئی چی دائیکوکو نے کہا جو اکیتا، شمالی جاپان میں ایک 62 سالہ چاول کا کاشتکار ہے۔
“میں اپنے چاول کے کھیت اپنے بیٹے کے سپرد نہیں کر سکتا چونکہ مجھے کاشتکاری کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا،” دائیکوکو نے کہا۔ “میں خود کو یہ سوچنے سے باز نہیں رکھ پاتا کہ مستقبل میں مجھے ان کھیتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے جنہیں میں نے اپنے آباء و اجداد سے ورثے میں حاصل کیا تھا”۔
جاپانیوں کے لیے چاول، جو گھروں میں تین وقت کھائے جاتے ہیں، ایک ایسا اناج ہے جس کی قومی قلب میں خصوصی اہمیت ہے۔ پہلے وقتوں میں یہ کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا تھا، اور اب بھی مذہبی مواقع پر اسے خراج تحسین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
مقامی طور پر پیدا شدہ چاول کو غیرملک میں پیدا شدہ چاول سے معیار میں برتر سمجھا جاتا ہے۔ اس ماہ یموری شمبن کی ایک رائے شماری میں 89 فیصد جواب دہندگان نے دعوی کیا کہ اگر انتہائی سستی درآمدی اشیا دستیاب ہو بھی گئیں تب بھی وہ جاپانی چاول خریدنا جاری رکھیں گے۔
نودا نے یہ اعلان کر کے، کہ جاپان ٹی پی پی کی تشکیل کے لیے مذاکرات میں اپنی ایڑی بھی بھگوئے گا، اپنی کبھی کبھار فرقہ بندی کا شکار ہونے والی پارٹی کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے خطرے سے دوچار کیا اور طاقتور کسان لابی کا غضب بھی اپنے سر لیا۔
آسٹریلیا، برونائی، چلی، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، پیرو، سنگاپور، امریکہ اور ویتنام پہلے ہی معاہدے کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے شرکت پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔
نودا کے اعلان نے اس ماہ ہوائی میں ہونے والے ایشیا پیسفک تجارتی تعاون (اپیک) کے اجلاس میں برق دوڑا دی اور کینیڈا، میکسیکو اور بعد میں تائیوان کو بھی ترغیب دی کہ وہ اپنی دلچسپی کا اظہار کریں کہ وہ ممکنہ طور پر دنیا کے سب سے بڑے آزاد تجارتی معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، جو عالمی پیداوار کے 40 فیصد حصے پر مشتمل ہو گا۔
یہ معاہدہ واشنگٹن کی طرف سے ایشیا پیسفک کے علاقے کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی کوششوں میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے، اور جاپان، جو دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے، کی اس میں شمولیت اس کی معتبریت ثابت کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
جاپانی برآمد کنندگان، جو ضدی مہنگے ین کی وجہ سے پس رہے ہیں، ٹوکیو کی طرف سے شمولیت پر پرجوش ہیں، اور امید کر رہے ہیں کہ اس سے انہیں غیرملی مارکیٹوں میں رسائی ملے گی جس سے انہیں ملک کی کم اور بوڑھی ہوتی آبادی کے لیے کمانے میں مدد ملے گی۔
تاہم کسان اب بھی اس سوچ پر قائم ہیں کہ سستی خوردنی اشیا کی یکلخت دروں ریزی ان کے شعبے کو تباہ کر دے گی۔
وہ ان مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن سے وہ پہلے ہی فوکوشیما کے ایٹمی بحران کی وجہ سے دوچار ہیں۔ مارچ کے زلزلے و سونامی نے ٹھنڈا کرنے کے نظاموں کو تباہ کر دیا تھا، جس سے ری ایکٹر پگھلاؤ کا شکار ہوگئے اور تابکاری خارج ہونے لگی۔
“ٹی پی پی (کا مسئلہ) اس وقت آیا ہے جب دن بدن زیادہ سے زیادہ کسان فوکوشیما میں اپنے کھیت ایٹمی بحران کی وجہ سے ترک کر رہے ہیں،” نیہوماتسو، وسطی فوکوشیما کے چاول کے ایک 57 سالہ کاشتکار نے کہا۔ “ہم دوہری مصیبت کا شکار ہیں”۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کی تیز رفتار اور زرعی شعبے کے بالکل مخالف اقتصادی ترقی کی وجہ سے زرعی اصلاحات کی صدائیں کوئی نئی بات نہیں۔
وزارت زراعت کے مطابق، پچھلے ایک عشرے میں جاپان میں کسانوں کی تعداد 30 فیصد کی کمی سے صرف 26 لاکھ رہ گئی ہے۔
ان کسانوں میں سے آدھے سے زیادہ 65 سال سے زائد عمر کے ہیں، جبکہ ستر فیصد سے زائد کے پاس دوسری ملازمتیں بھی ہیں، جس کی جزوی وجہ چاول کی کاشت کا رقبہ کم کرنے کی پالیسی بھی ہے تاکہ چاول کی قیمت کو مستحکم رکھا جا سکے، جس کا نتیجہ بڑی تعداد میں چاول کے کھیت ترک کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔
چاول کی کم ہوتی کھپت بھی ایک چیلنج ہے، چونکہ بہت سے نوجوان جاپانی روٹی اور پاستا جیسا مغربی کھانا اپنا رہے ہیں۔
اگرچہ کسان بلاشبہ مشکلات کا شکار ہیں، لیکن اب بھی طاقتور جگہوں پر ان کے طاقتور دوست موجود ہیں۔
سنٹرل یونین آف ایگریکلچرل کوآپریٹوز چاول کی تقسیم کی دلالی کرتی ہے، مالی معاونت مہیا کرتی ہے، زرعی مہمات چلانے میں پیش پیش رہتی ہے اور بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کے ہاں لابنگ کرتی ہے۔
کسانوں نے بھی زراعت کے ہمدرد قانون سازوں کی مالی مدد کے لیے لابنگ گروپ بنا رکھے ہیں، اور یہی لوگ قدامت پسند لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے آدھی صدی سے زیادہ لمبے ناقابل شکست اقتدار کو سہارا دیئے رکھنے میں کلیدی حیثیت کے حامل تھے۔
اگر، جیسا کہ غیرملکی سیاستدان مطالبہ کر رہے ہیں، چاول آزاد تجارت کے معاہدے میں شامل کر لیا جاتا ہے، تو ان کسان دوست سیاستدانوں کی طرف سے عائد کیے جانے والے بڑے بڑے ٹیرف ختم کرنا پڑیں گے۔
“اگر ٹی پی پی متعارف کروایا گیا، تو جاپانی چاول غیرملکی چاول کے ہاتھوں شکست کھا جائے گا۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں،” ٹوکیو کی فوکوکو میوچل لائچ انشورنس کے تجزیہ نگار تاکاشی اوگینو نے کہا۔
نودا نے اب تک اس معاملے کے ساتھ کھیل کر ہر ایک کو اس کی مرضی کی تصویر دکھانے اور خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔
“میرا نہیں خیال کہ ہمیں ایسے مذاکرات میں شرکت کی ضرورت ہے جو ہمارے قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہوں،” انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا۔
تاہم، ہیدیکی شیمازاکی، جو ٹاپ ریور نامی فرم کے سی ای او ہیں، جو بڑے پیمانے پر کام کاج قائم کرنے کے خواہش مند نوجوان کسانوں کو مدد فراہم کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ ہر کسی کو خوش کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔
“ہم کچھ زیادہ اہم حاصل کرنے کے مقابل کچھ قربانیوں سے بچ نہیں کر سکتے ہیں،”شیمازاکی نے کہا جن کی کمپنی پرانے فیشن کی جاپانی زراعت میں کارپوریٹ انداز کا انتظام و انصرام متعارف کروانے کی خواہش رکھتی ہے۔
“ہر ایک سے مساوی سلوک کے روایتی خیالات کام نہیں کرتے۔ ہمیں جنگ جیتنے کے لیے ایک لڑائی ہار لینی چاہیے،” انہوں نے کہا۔