ٹوکیو: جاپان کے فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کے مورچہ زن آپریٹر ٹیپکو نے کارکنوں کی ایٹمی بحران پیدا کرنے والے تباہ کن زلزلے و سونامی سے متعلق انتہائی مایوس کن لمحات کی یادوں کا ایک مجموعہ شائع کیا ہے۔
ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کی جمعے کو جاری کی گئی ایک عبوری رپورٹ کے مطابق، مارچ کی آفت کا ذکر کرتے ہوئے، ایک چیف آپریٹر بیان کرتا ہے کہ اسے کنٹرول پینل اور عمارت کی بتیاں جلنے بجھنے اور پھر مکمل اندھیرا چھانے پر کیسے اسے احساس ہوا کہ کوئی مصیبت آگئی ہے۔
بےنام چیف آپریٹر کے الفاظ میں:”مجھے تب احساس ہوا کہ سونامی عمارت سے ٹکرا گیا ہے جب کارکنوں میں سے ایک بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور چلایا، “پانی طوفانی رفتار سے اندر گھس رہا ہے،”۔
“بجلی کے ذرائع بند ہو جانے کے بعد مجھے ہر شے کھو دینے کا احساس ہوا،” اس نے کہا۔ “دوسرے کارکن متفگر نظر آئے۔ وہ بحث کرنے لگے اور پوچھنے لگے:’کیا (ری ایکٹروں کو) کنٹرول نہ کر سکنے کی صورت میں ہمارا یہاں رہنے کا کوئی جواز ہے؟'”۔
“میں جھکا اور گڑگڑایا کہ یہیں ٹھہرو۔”
11 مارچ کو 9.0 شدت کے زلزلے اور بعد کے سونامی نے ایٹمی ری ایکٹر کے کولنگ اور پاور ذرائع کو بےکار کر دیا تھا۔
یہ عبوری رپورٹ کارکنوں کی گواہیوں کی پہلی تفصیل تھی، جنہیں بعد کے ہفتوں میں ہیروز کے طور پر خراج تحسین پیش کیا گیا چونکہ انہوں نے حادثے کے بعد صحت کو لاحق خطرات کی پرواہ کیے بغیر اس ایٹمی حادثے کو اس سے بھی بدتر ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔
انہوں نے ایک اخراجی والو کو ہاتھ سے کھول کر ری ایکٹر کے کنٹینر میں سے دباؤ خارج کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا۔
“ہم نے مکمل حفاظتی لباس پہن لیا لیکن پھر بھی نوجوان کارکنوں کو یہ کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے، چونکہ ہمیں ایسے حصے میں جانا تھا جہاں تابکاری کے درجے بہت زیادہ تھے،” ایک کارکن نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
“جب میں والو کھولنے کے لیے اس جگہ پہنچا تو میں نے ٹورس (ڈونَٹ جیسی چیز جو ری ایکٹر کے پیندے میں ہوتی ہے) سے پٹاخے کی ایک دہشتناک آواز سنی”، اس نے کہا۔
“جب میں نے اپنا ایک پاؤں ٹورس پر رکھا اور والو تک پہنچا، تو میرا ربڑ کا کالا جوتا (حرارت کی وجہ سے) پگھلا اور پھسل گیا۔”
آپریٹروں نے کام کرنے کے لیے مایوس کن حالات کا بھی ذکر کیا جب وہ تباہ حال پلانٹ کو مستحکم کرنے کے لیے جنگ کر رہے تھے۔
“ہم نے شدید آفٹرشاکس سہے، اور کئی بار ہمیں مکمل ماسک چہرے پر چڑھائے ہوئے (سونامی کے خوف سے) مایوسی میں کسی پہاڑی پر بھاگ کر چڑھنا پڑا،” ایک کارکن نے کہا۔
ایک اور کارکن برقی تاریں بچھانے اور برقی رو بحال کرنے کی دوڑ کے بارے میں کہنے لگا: “ہم نے (ایک حصے میں) کام کئی گھنٹوں میں ختم کیا، اگرچہ اس کے لیے عموماً ایک یا دو ماہ درکار ہوتے ہیں۔”
“یہ ایک ایسا آپریشن تھا جسے ہمیں چھپ چھپ کر، اور بجلی کے چمٹنے سے ڈر ڈر کر کرنا پڑا،” کارکن نے کہا۔
پلانٹ پر دھماکوں اور آگ نے تابکاری کی بڑی مقدار کو جنم دیا، جس سے ٹیپکو کو ہزاروں کارکنوں کو پیچھے ہٹانا پڑا، جبکہ چند درجن ہی پیچھے رہ پائے۔
ان کارکنوں نے “فوکوشیما ففٹی” کی عرفیت حاصل کی، تاہم یہ تعداد پھر ہزاروں تک پہنچ گئی، اور ان میں ہٹاچی اور توشیبا جیسے ساتھی اداروں کے ٹیکنیشن بھی شامل ہو گئے۔
انہیں پلانٹ کے چھ ری ایکٹروں، جن میں سے تین زیادہ گرم ہو ئے اور پگھلاؤ کا شکار ہوئے تھے، میں ٹھنڈا کرنے والے پانی کا بہاؤ جاری رکھنے کا کام سونپا گیا۔
پچھلے ماہ، فوکوشیما ڈائچی پلانٹ کے اس وقت کے چیف ماساو یوہیدا نے سرکاری ٹی وی این ایچ کے کو بتایا: “حادثے کے فوراً بعد پہلے ہفتے میں میں نے کچھ بار سوچا کہ میں مرنے جا رہا ہوں”۔
ری ایکٹر نمبر 1 اور 3 کے اطراف عمارتوں کو ادھیڑ دینے والے ایک ہائیڈروجن دھماکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: “میں نے سوچا کہ سب کچھ ختم ہو گیا”۔
پچھلے نو ماہ میں کئی ایک رکاوٹوں کے باوجو، جاپانی حکومت اور ٹیپکو کا کہنا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر تک پلانٹ کو کولڈ شٹ ڈاؤن تک لانے کے لیے مقررہ شیڈیول کے مطابق چل رہے ہیں، جو پرانے منصوبے کی نسبت ایک ماہ پہلے ہونے جا رہا ہے۔
اس حادثے کی وجہ سے بلاواسطہ کوئی جان نہیں گئی تاہم اس نے غالباً عشروں تک ہزاروں لوگوں کو تابکاری کی وجہ سے اپنے گھروں اور قصبوں سے بےگھر ہونے پر مجبور کیا ہے۔ سونامی اور زلزلے میں قریباً بیس ہزار لوگ ہلاک ہوئے
اے ایف پی کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ایٹمی حادثے سے نمٹنے اور روک تھام کے انچارج وزیر گوشی ہوسونو نے تباہ حال پلانٹ کو رام کرنے کے لیے پلانٹ کارکنوں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔
“یہ پلانٹ کے ہنگامی کارکن ہی تھے جنہوں نے سب سے زیادہ حصہ ڈالا،” انہوں نے کہا۔ “آخر کار ہم کولڈ شٹ ڈاؤن کی منزل نظروں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ کارکنوں کی کوششوں کو بہت زیادہ خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے”۔
تاہم ہوسونو نے پچھلے ماہ پلانٹ کے دورے کے موقعے پر خبردار کیا تھا کہ مشینری کو منہدم کرنے کے لیے تیس سالوں کا کام ابھی پڑا ہے۔