جاپان نے بقیہ 1200 کورین شاہی دستاویزات واپس کر دیں

ٹوکیو: جاپان نے منگل کو جنوبی کوریا کی 1000 سے زائد تاریخی دستاویزات، جو اس نے جزیرہ نما پر نوآبادیاتی دور حکومت کے دوران قبضے میں لیں تھیں،  کی جلدیں واپس کر دیں تاکہ بےچین تعلقات میں کچھ بہتری پیدا ہو سکے۔

سئیول کے مغرب میں واقع شہر این چن کے ہوائی اڈے پر ایک روایتی طائفے نے 1200 جلدوں کے پہنچنے کا خیرمقدم کیا۔ جاپانی اور جنوبی کوریائی اہلکاروں کی طرف سے ایک تقریب میں شرکت کے بعد یہ کتابیں سئیول کے ایک سرکاری میوزیم میں رکھنے کے لیے بھجوائی جانی تھیں۔

ان دستاویزات میں شادیوں، مرگ، ضیافات اور دوسرے مواقع کے لیے کوریا کے جیسؤن خاندان کے شاہی قوانین درج تھے، جنہوں نے 14ویں صدی سے 1910 تک کوریا پر حکومت کی، پھر جاپان نے ان سے حکومت چھین لی تھی۔

ٹوکیو نے تعلقات بہتر کرنے کی امید پر پچھلے سال یہ دستاویزات واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

جاپانی وزیراعظم یوشیکو نودا نے قیمتی کتابوں کی پانچ جلدیں اکتوبر میں بذات خود پہنچائیں، جب وہ جنوبی کوریائی صدر لی میونگ بیک سے سئیول میں ملے تھے۔

جاپان کے 1910 تا 1945 کے نوآبادیاتی دور حکومت کے بعد سے پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے تعلقات اب بھی تناؤ کا شکار ہیں۔

بحر جاپان (مشرقی سمندر) میں جزائر کی ایک زنجیر، جسے کوریا میں ڈوکدو اور جاپان میں تاکےشیما کہا جاتا ہے، کا تنازع اکثر کھنچے کھنچے تعلقات کی وجہ رہا ہے۔

سئیول کو یہ شکایت بھی ہے کہ اس کے ہمسائے کی درسی کتابیں مشترکہ تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرتی ہیں۔ اور وہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی طرف سے کوریائی خواتین کو جسم فروشوں کے طور پر استعمال کرنے پر زرتلافی کے لیے مذاکرات بھی کرنا چاہتا ہے۔

جاپان کہتا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے تمام معاملات کو 1965 کے زرتلافی کے معاہدے میں طے کر لیا گیا تھا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے تھے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.