ٹوکیو: اولمپس کارپوریشن نے بدھ کو وعدہ کیا کہ وہ 1.5 بلین ڈالر سرمایہ کاری نقصانات چھپانے کی صریح اسکیم کے خطاکار منتظمین کے پیچھے جائے گا۔
جاپانی کیمرہ اور طبی سامان ساز ادارے نے کہا کہ وہ 70 کے قریب لوگوں، بشمول سابقہ اور موجودہ بورڈ اراکین، آڈیٹرز اور دوسرے اہلکاروں سے اس فراڈ میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے کی تفتیش کرے گا، جو جاپان کا سب سے بڑا کارپوریٹ اسکینڈل بن چکا ہے۔
صدر شوئیچی تاکایاما ٹوکیو ہوٹل میں معذرت کے لیے پورے طور پر رکوع کے بل جھک گئے، جبکہ ایک دن پہلے ایک تھرڈ پارٹی پینل نے اپنی تفتیش کے نتائج جاری کیے ہیں جنہوں نے انکشاف کیا کہ سابقہ اعلی منتظمین، جو “قلب تک دغاباز ہو چکے تھے”، نے تین عشروں پر پھیلے اس اکاؤنٹنگ اِخفا کے تانے بانے بُنے تھے۔
کمپنی نے کہا کہ اسے امید ہے کہ وہ آمدن کی رپورٹ، بشمول تازہ ترین و پانچ سالہ نظر ثانی شدہ رپورٹیں، جمع کروا کر بازار حصص کی طرف سے مقرر کی گئی 14 دسمبر کی ڈیڈ لائن کو پورا کر کے ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج سے نکالے جانے کے خطرے کو ٹال دے گی۔
ٹوکیو سے تعلق رکھے والی اولمپس کارپوریشن بیرونی لوگوں جیسے سابقہ ججوں اور پراسیکیوٹرز پر مشتمل پینل بھی تشکیل دے رہی ہے تاکہ ممکنہ طور پر ناقص آڈٹنگ کا پتا لگایا جا سکے، اتنظامیہ میں اصلاحات کی جا سکیں، اور منتظمین کے ملوث ہونے کی تحقیقات کی جا سکیں۔
اولمپس کے اہلکار نوبویوکی اونیشی نے کہا کہ کمپنی کسی بھی خطاکار کو مقدمات کا نشانہ بنا سکتی ہے، جس میں فوجداری مقدمات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
یہ اسکینڈل اس وقت روشنی میں آیا جب کمپنی کے سابقہ چیف ایگزیکٹو مائیکل ووڈفورڈ، جو برطانوی ہیں، نے مہنگی مالیاتی مشاورت کی فیسوں اور مہنگی خریداریوں پر اپنے شبہات کو عوامی طور پر بیان کر ڈالا۔ ووڈفورڈ کو اکتوبر میں نکال دیا گیا تھا۔
تاکایاما نے کہا ووڈفورڈ کی بطور کمپنی سربراہ واپسی کا فیصلہ شئیر ہولڈرز کی میٹنگ میں کیا جائے گا، جو کمپنی کی نظرثانی شدہ آمدنی رپورٹوں کے اجرا کے بعد منعقد کی جائے گی۔ انہوں نے میٹنگ کے لیے کوئی تاریخ نہیں دی۔
“ہم اس فعل کو کچھ مثبت نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں،” انہوں نے کہا۔
ووڈفورڈ نے کہا ہے کہ وہ اولمپس کو صاف ستھرا، اپنے زیرقیادت دیکھنا چاہیں گے۔
آزاد پینل نے پتا چلایا کہ 2003 سے اولمپس 117.7 بلین ین (1.5 بلین ڈالر) کے سرمایہ کاری نقصانات کے شکنجے میں تھی جو 1990 کے عشرے تک پرانے تھے۔
687 ملین ڈالر کی مالیاتی مشاورت کی فیس اور کئی کمپنیوں کی مہنگی خریداریاں اس اِخفا کا ایک حصہ تھیں، جن میں غیرملکی بینک اور کئی ایک فنڈز استعمال کر کے ان بھاری نقصانات کی کمپنی کے کھاتوں سے اوجھل رکھا گیا۔
“انتظامیہ قلب تک دغاباز و متعفن تھی اور اس کے اطراف آلودہ ہو چکے تھے، جس سے عام تنخواہ یافتگان کی بدترین ذہنیت کا جنم ہوا،” رپورٹ نے جاپان کے کارپوریٹ وفاداری کے کلچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس نے کہا کہ اس نے “سماج مخالف گروہوں” کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں پایا، جو جرائم کے جاپانی گینگز کے لیے گویا تعریف کی بات ہوگئی، چونکہ کئی ایک نیوز ایجنسیوں نے ان کے ملوث ہونے کے اندازے لگائے تھے۔ پینل نے کہا کہ اس نے سرمایہ کاری نقصانات کے اِخفا کے لیے استعمال شدہ پیسے اور فنڈز کا سراغ لگایا، اور کوئی زیرزمین گروہ اس میں ملوث نہیں تھا۔
تاکایاما نے کہا کہ کم از کم دو سابقہ صدور، تسویوشی کیکوکاوا اور ماساتوشی کیشی موتو، اس اسکیم کے بارے میں جانتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اولمپس کارپوریٹ گورنس کو مضبوط بنائے گی، اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد نئے بورڈ کی زیر نگرانی کام کرے گی۔ انہوں نے یہ اشارہ نہیں دیا کہ نئے ممبران کون ہو سکتے ہیں، اور کہا کہ شئیر ہولڈرز فیصلہ کریں گے۔
“ہم ایک نئی اولمپس کے طور پر دوبارہ جنم لینے کی امید کرتے ہیں،” تاکایاما نے کہا۔
کمپنی کی کھاتہ بندی اور حساب کتاب کا اندراج اب جاپان، امریکہ اور برطانیہ میں زیرنگرانی ہے۔ ووڈفورڈ تینوں ممالک میں حکام سے مل چکے ہیں۔
اس اسکینڈل نے جاپانی کارپوریٹ گورنس پر انتہائی تلخ طریقے سے روشنی ڈالی ہے، جسے عالمی معیارات کے حوالے سے پیچھے ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
کیکوکاوا، جس نے اپنے جانشین کے طور پر اولمپس کی قیادت کے لیے ووڈفورڈ کو پھنسایا تھا، نے اس کے بعد سے بورڈ سے استعفی دے دیا ہے۔
جب پوچھا گیا کہ اولمپس نے اتنا مشتبہ کارپوریٹ کلچر کیوں پروان چڑھایا تھا، تو تاکایاما نے جواب دیا: “انتظام و انصرام کا طریقہ کار ایک ہی آدمی کے گرد بہت زیادہ گھومنے لگ گیا تھا”۔