واشنگٹن: ناساا ور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ 11 مارچ کو جاپان کے شمال مشرقی حصے میں آنے والے زلزلے سے پیدا ہونے والا سونامی عرصہ دراز سے قیاس کیا جانے والا “یکجا ہونے والا سونامی” تھا۔
اس سونامی نے سمندر کی اونچی نیچی چٹانوں پر اپنی شدت دوگنی کر لی تھی، جس سے ٹکرانے کے بعد اس کی تباہ کن طاقت بڑھ گئی۔
ناسا کے ڈیٹا اور یورپین ریڈار سیٹلائٹس نے اس دن لہرں کے کم از کم دو رخ دیکھے۔ ان کے رخ آپس میں مل گئے، جس سے سمندر میں دوگنی اونچائی والی اکلوتی لہر وجود میں آئی۔ یہ لہر طاقت کھوئے بغیر لمبے فاصلے طے کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ سمندر کے اونچے نیچے مقامات اور زیرآب پہاڑی سلسلوں نے سونامی کے مرکز سے کچھ سمتوں کو جانے والی لہروں کو یکجا کر دیا۔
یہ دریافت وضاحت میں مدد دیتی ہے کہ کیسے سونامی سمندر کو پار کر کے کسی خاص جگہ بڑے پیمانے کی تباہی کا باعث بنتے ہیں جبکہ دوسرے مقامات اس سے بچ جاتے ہیں۔ اس ڈیٹا سے امید بڑھی ہے کہ شاید سائنسدان سونامی کی پیشن گوئی کو بہتر کرنے کے قابل ہو سکیں۔
ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری، پاسادینا، کالیف کےتحقیقی سائنسدان وائے ٹونی سانگ اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر سی کے شوم نے اس ڈیٹا اور سیمولیشنز پر بحث و مباحثہ کیا جس سے انہیں پیر کو امریکن جیولوجیکل یونین کی سان فرانسسکو کی میٹنگ کے موقع پر میڈیا کے سامنے کہانی کے تانے بانے جوڑنے میں مدد ملی۔
“اس بات کا 10 لاکھ میں ایک امکان تھا کہ ہم دوہری لہروں کو سیٹلائٹ کے ذریعے دیکھنے کے قابل ہو سکے،” سانگ نے کہا۔ وہ ناسا کی فنڈ شدہ تحقیق کے مرکزی تحقیق کار ہیں۔
“محققین کو عشروں سے شبہ رہا ہے کہ ایسے ‘یکجا ہونے والے سونامی’ شاید 1960 میں چیلین سونامی کے ذمہ دار ہوں جس سے جاپان اور ہوائی میں 200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے، تاہم کسی نے ابھی تک اصل میں یکجا ہونے والے سونامی کا مشاہدہ نہیں کیا تھا،” سانگ نے کہا۔ “یہ کسی جن بھوت کو تلاش کرنے جیسا کام تھا۔ ناسا فرنچ اسپیس ایجنسی کے سیٹلائٹ میں موجود خلائی بلند پیما عین اس وقت وہاں موجود تھا جس نے دوہری لہروں کی تصویر کھینچی اور اس کے موجود ہونے کی تصدیق کی۔”
ناسا کا جیسن سیٹلائٹ ون، 11 مارچ کو سونامی کے اوپر سے گزرا، اسی طرح دوسرے دو سیٹلائٹ، ناسا یورپین جیسن ٹو اور یورپین اسپیس ایجنسی کا اینوی سیٹ بھی وہیں سے گزرے۔ تینوں میں ریڈار پر مشتمل بلند پیما موجود تھے، جنہوں نے چند سینٹی میٹر کے غلطی کے فرق کے ساتھ سطح سمندر میں آنے والی تبدیلیوں کو ماپا۔ ہر سیٹلائٹ نے سونامی کو مختلف جگہوں سے کراس کیا، جس سے مختلف رخوں کی لہروں کو ان کی پیدائش کے وقت ماپنا ممکن ہو سکا۔ جیسن ون دس سال پہلے اسی ہفتے میں 7 دسمبر، 2001 کو لانچ کیا گیا تھا۔
“ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اسے استعمال کر کے مقام اور زیرآب زلزلیاتی نظام کے مطابق دنیا کے مخصوص ساحلی علاقوں میں سونامی کے خطرے کی پیشن گوئیاں بہتر بنا سکتے ہیں،” شوم نے کہا۔
محققین کا خیال ہے کہ اونچے نیچے پہاڑ اور سمندری فرش پر واقع زیر آب پہاڑی سلسلوں نے ابتدائی سونامی لہروں کا رخ ایکدوسرے سے پرے پھیر دیا جس سے دو مختلف سمتوں میں پرواز کرنے والے جیٹ طیاروں کی طرح ہر لہر کا اپنا ایک رخ پیدا ہو گیا۔
سمندری فرش کے نشیب و فراز سونامی کی لہروں کو مختلف سمتوں میں ٹہوکے دیتے ہیں اور ان کی تباہی کی صلاحیت کو بظاہر بےترتیب و بےسمت دکھا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے خطرے کے نقشے، جو سونامی کے ٹکرانے کی جگہ کی پیشن گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، زیرآب نشیب و فراز اور جیوگرافی پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ نقشے ایک خاص ساحلی پٹی کے نزدیک واقع نشیب و فراز اور جیوگرافیے کو ہی شامل کرتے تھے۔ یہ تحقیق تجویز دیتی ہے کہ سائنسدان ایسے نقشے تیار کریں جو تمام زیرآب جغرافیے کو شامل کر کے پیشن گوئی کر سکیں، وہ زیرآب کٹے پھٹے علاقے اور پہاڑ بھی جو ساحلوں سے بہت دور واقع ہیں۔
سانگ اور ان کی ٹیم سیٹلائٹ ڈیٹا کی تصدیق ماڈل سیمولیشنز کی بنیاد پر کرنے میں کامیاب رہے جس میں آزاد ڈیٹا، جاپان کا جی پی ایس ڈیٹا اور ماحولیاتی و سمندری معاملات کے قومی ادارے کے” گہرے سمندروں میں سونامی کی جانچ و اطلاع کے پروگرام” سے موصول ہونے والا ڈیٹا استعمال ہوا۔
“اس تحقیق پر مشتمل آلات اہلکاروں کو پیشن گوئی کرنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ ممکنہ دور رخی سونامی جیٹ آپس میں یکجا ہوں گے یا نہیں،” سانگ نے کہا۔ “اور اس سے ساحلی علاقوں پر سونامی سے نقصان کے نقشے بنائے جا سکیں گے جس سے آبادیوں اور اہم انفراسٹرکچر کو بچانے میں مدد ملے گی”۔