ٹوکیو: جمعے کو دو دائت کے ایوان بالا میں کابینہ کے دو وزرا کے خلاف تحاریک مذمت پیش کر دی گئیں، جو وزیراعظم یوشیکو نودا کی تین ماہ پرانی حکومت کے لیے ایک دھچکا ہو سکتا ہے۔
“یہ واضح ہے کہ وزیر دفاع (یاسوؤ) اچیکاوا جاپان کی قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں اور نامناسب الفاظ اور رویے کے ذریعے قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں،” تحریک میں کہا گیا۔
اپوزیشن کی اکثریت والے ایوان بالا نے اچیکاوا کے خلاف یہ تحریک پاس کر لی، جس میں 239 میں سے 130 قانون سازوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا اور اس کی وجہ اچیکاوا کے کئی ایک الل ٹپ بیانات ہیں جنہوں نے اوکی ناوا کے لوگوں کو ناراض کر دیا، جو پہلے ہی بڑی امریکی فوجی موجودگی کی میزبانی کرنے میں متامل ہیں۔
ایک الگ تحریک مذمت کینجی یاماؤکا کے خلاف پاس کی گئی، جو صارفین کے اُمور کے وزیر ہیں۔
یاماؤکا پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان نے ایسے بزنس گروپوں سے تعلقات ہیں جو مخروطی اسکیمیں چلاتے ہیں (ایسی اسکیمیں جن میں ایک بندہ چیز خرید کر آگے لوگوں کو وہی چیز خریدنے کی ترغیب دیتا ہے، اور اس طرح پیسے کماتا ہے جبکہ نیچے والے بھی ایسے ہی مزید مرغے تلاش کر کے پھنسا کر کمیشن کماتے ہیں)، اور ان پر الزام ہے کہ وہ صارفین کے امور کو چلانے کی اہلیت رکھنے والی شخصیت نہیں۔
ان تحاریک پر عمل کرنا لازمی نہیں ہیں، تاہم بڑی اپوزیشن جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے دونوں وزرا کے عہدوں پر موجود رہنے کی صورت میں جنوری سے دائت کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
یہ بائیکاٹ پارلیمنٹ کو مفلوج کر دے گا اور نودا کے قانون سازی کے پروگرام کو ڈیڈ لاک کا شکار کر دے گا۔
“یہ جاپانی لوگوں کے لیے قطعی فائدہ مند نہیں ہوگا کہ وہ اپنے عہدوں پر برقرار رہیں،” ماساشی واکی نے کہا، جو ایل ڈی پی کے پارلیمانی امور کے سینئیر انچارج رکن ہیں۔ “یہ ہمارا فرض ہے کہ جب ہم ایک شخص کو متعلقہ کام کے لیے نااہل تصور کریں تو اس کے خلاف تحاریک مذمت جمع کروائیں”۔
جاپانی وزرائے اعظم، جن میں نودا پانچ سالوں میں چھٹے وزیراعطم ہیں، کو بنیادی طور پر ان گھسی پٹی مہمات کے ذریعے ناکارہ کر دیا جاتا ہے۔
ان کی پارٹی کے اندر اور باہر دونوں طرف سے مخالفین ان کے اختیار کو ایک ایک وزیر کو ہدف بنا کر کم کرتے جاتے ہیں حتی کہ سب سے اونچے عہدے پر بیٹھی شخصیت کی جڑیں مہلک حد تک کھود دی جاتی ہیں۔
حزب اختلاف نے بہت ابتدا میں ہی، اور شاید غیرمتوقع طور پر، نودا انتظامیہ کا ایک بندہ ڈھا لیا تھا جب وزیر معیشت، تجارت و صنعت یوشیو ہاچیرو کو فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کے قریب ایک علاقے کو “موت کا قصبہ” کہنے پر استعفی دینے پر مجبور کیا گیا۔
اپنے دور کے نسبتاً آغاز میں ہی، اگرچہ اختتام میں نہیں، دو وزرا کا نقصان نودا کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اچیکاوا کی مشکلات اس وقت شروع ہوئیں جب ان کے ماتحت کام کرنے والے ایک اہلکار نے صحافیوں کے ساتھ پینے پلانے کی ایک نشست میں استوائی جزیرے اوکی ناوا پر واقع امریکی فوجی اڈے کی منتقلی کے منصوبے کی بات کرتے ہوئے نازیبا کلمات کا استعمال کر لیا۔
اس اہلکار کو الفاظ کے مطلب، کہ اس کے کہے کا مطلب کسی عورت کو ریپ کے ارادے سے مطلع کرنا تھا، کی آڑ میں حکومت کی ٹانگ گھسیٹے جانے پر برخاست کر دیا گیا۔
اس ایشو پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے باوجود اچیکاوا کی گردن میں اس وقت پھندا ڈال دیا گیا جب انہوں نے 1995 میں تین امریکی ملازموں کی طرف سے ایک 12 سالہ اوکی ناون لڑکی کے ریپ کے واقعے کی تفصیلات سے لاعلمی ظاہر کی؛ یہ واقعہ اوکی ناوا والوں کی جزیرے پر امریکی موجودگی سے نفرت کو بھڑکانے کا باعث بن گیا تھا۔
ایک پریس کانفرنس کے موقع پر انہوں نے معاملات کو اور بدتر بنا دیا جب انہوں نے ریپ کو “شراب پی کر بدمستی کا واقعہ” قرار دیا۔
قانون سازوں کے سامنے جمعے کو پیش کی جانے والی تحریک میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا اچیکاوا وزیر دفاع کے کردار کے لیے پورا اترتے ہیں، جبکہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے آپ کو قومی سلامتی کے معاملے میں “عام آدمی” قرار دے کر اپنے بارے میں شکوک کو مزید ہوا دی تھی۔
اچیکاوا نے جمعے کو کہا کہ انہیں یہ عہدہ چھوڑنے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔
“میں نے اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا ہے جس سے یہ حالات پیدا ہوئے، تاہم میں بطور وزیر دفاع اپنا فرض پورا کرنا پسند کروں گا” انہوں نے صحافیوں کو بتایا۔ “میری خواہش تبدیل نہیں ہوئی۔”
یاماؤکا پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان نے ایسے بزنس گروپوں سے تعلقات ہیں جو مخروطی اسکیمیں چلاتے ہیں، اور ان پر الزام ہے کہ وہ صارفین کے امور کو چلانے کی اہلیت رکھنے والی شخصیت نہیں۔