شمالی کوریائی راج کے ہاتھوں سابقہ یرغمال جاپانیوں نے پیر کو اس امید کا اظہار کیا کہ کِم جونگ اِل کی موت کا نتیجہ پیانگ یانگ کی طرف سے اغوا شدہ لوگوں کو آزاد کرنے کی صورت میں نکلے گا۔
کاؤرو ہاسوکی، جنہوں نے 1979 میں شمالی کورین ایجنٹوں کے ہاتھ آجانے کے بعد 24 سال وہاں گزارے، نے ٹوکیو پر زور دیا کہ وہ قید تنہائی کی زندگی گزارنے والے ان کے ساتھی اغوا شدگان کی واپسی کے لیے کسی قسم کی سستی کا مظاہرہ نہ کرے، تاکہ انہیں بخیریت واپس لایا جا سکے۔
“میں نے جاپانی حکومت سے کہا ہے کہ صورت حال کا احتیاط سے تجزیہ کرے اور وہاں ابھی تک پھنسے ہوئے لوگوں کی بحفاظت واپسی کے لیے اپنی پوری کوشش کرے،” انہوں نے ایک بیان میں کہا۔
ٹوکیو کے پیانگ یانگ کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور آپسی تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں، جن کی جزوی وجہ 1910 سے 1945 کے عرصے میں جزیرہ نمائے کوریا پر جاپان کی وحشیانہ طرز حکومت بھی ہے۔
جاپان میں بہت سے لوگ اس پراسرار راج کو کھلی دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہیں، جو کہ 1970 اور 1980 کے عشرے میں کئی ایک جاپانی شہریوں کے اغوا کے بعد مزید خراب ہو گئی ہے۔ ان شہریوں کو پیانگ یانگ کے جاسوسوں نے اغوا کیا تاکہ وہ انہیں جاپان کی ثقافت اور زبان کی تربیت دے سکیں۔
2002 میں شمالی کوریا نے 13 جاپانی شہریوں کے اغوا کو تسلیم کیا تھا۔