ٹوکیو: جاپان امریکہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ “جلد از جلد” اعلی پیمانے کی سہ فریقی میٹنگ کرنا چاہتا ہے؛ یہ بات ٹوکیو نے منگل کو کہی۔ جبکہ اتحادی کم جونگ اِل کی موت کے بعد رابطے بڑھا رہے ہیں۔
جنوبی کوریا نے پیر کو شمالی کورین رہنما کی موت کے اعلان کے بعد اپنی فوج کو چوکس کر دیا، جبکہ جاپان، جو ماضی میں بھی پیانگ یانگ کی جارحیت کا شکار رہا ہے، نے نگرانی اور جاسوسی کو مزید سخت کر دیا۔
وزیراعطم کے ترجمان کے مطابق، منگل کو وزیر اعظم یوشیکو نودا نے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ 15 منٹ تک بات چیت کی۔ جنوبی کوریائی صدر لی میونگ بیک نے کِم کی موت کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر ہی اوباما سے بات کر لی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، دونوں کالوں میں اوباما نے علاقے کے لیے اپنے وعدوں کا اعادہ کیا اور کہا کہ واشنگٹن نے اپنے اتحادیوں کے دفاع کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔
جاپان میں قریباً پچاس ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، جبکہ جنوبی کوریا میں اٹھائیس ہزار فوجی ہیں۔
چیف کیبنٹ سیکرٹری اوسامو فوجیمورا نے کہا کہ نودا اور اوباما نے شمالی کوریا کی نیوکلیائی دوڑ روکنے کے لیے چھ فریقی مذاکرات کی بحالی پر بات چیت کی۔
چھ فریقوں میں دونوں کوریا، چین، جاپان، روس اور امریکہ شامل ہیں، تاہم فوجیمورا نے کہا کہ ٹوکیو اس سے پہلے ایک مرکوز اجتماع چاہتا ہے۔
“میرا خیال ہے کہ ہم پہلے جاپان، امریکہ اور جنوبی کوریا کے مابین ایک اعلی سطحی میٹنگ کرنے کے منصوبے پر غور کریں گے،” انہوں نے صحافیوں کو بتایا۔
“میں یہ نہیں کہہ سکتا یہ کب منعقد ہو گی، تاہم میرا خیال ہے کہ ہم اسے جلد از جلد کریں گے”۔
فوجیمورا نے کہا کہ جاپانی انٹیلی جنس نے شمالی کوریا کی بھاری بھرکم فوج کی ترتیب و تنظیم میں کوئی پریشان کن تبدیلی نہیں دیکھی۔
“اس وقت ہمارے پاس ایسے اقدامات کی کوئی تصدیق موجود نہیں ہے کہ جس سے ہمارے ملک کی قومی سلامتی کو خطرہ ہو،” انہوں نے کہا۔
1 comment for “جاپان امریکہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ کِم کے بعد کی صورت حال پر بات چیت کرنا چاہتا ہے”