جاپان میں آفت سے بچ جانے والے سال کی مشکلات، اور حاصل شدہ سبق پر نظر ڈالتے ہیں

جیسے جیسے 2011 کا آخر قریب آ رہا ہے، 2011 کے زلزلے و سونامی اور بعد کے ایٹمی بحران سے پامال ہونے والے لوگ دکھ اور تباہی بھرے اس سال پر مڑ کر نظر ڈالتے ہیں؛ ایک ایسا دور جس نے انہیں خاندانی رشتوں کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔

46 سالہ سایوری کوبایاشی آفت زدہ علاقوں کے ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے آفت کے بعد مانیچی شمبن کے ایک فالو اپ سروے کا جواب دینا پسند کیا۔ انہوں نے کہا کہ 9 شدت کا زلزلہ آنے کے بعد کے مہینوں میں ان کے اپنے خاوند تعلقات بحال ہو چکے ہیں۔

60 سالہ شوئیچی ہوسوکاوا، 11 مارچ کے سونامی سے بری طرح متاثر ہونے والے صوبہ ایواتے کے شہر اوفوناتو میں مچھیرے کا کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ سال ان کے تجربے میں آنے والا  دکھی ترین، انتہائی دردناک اور کھٹن ترین سال تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں پتا کہ قسمت نے ان کے لیے اگلے دن میں کیا رکھا ہے (چناچہ وہ پرامید ہیں)۔

72 سالہ تومیکو تامورا جو صوبہ فوکوشیما کے شہر مینامیسوما کے رہائشی ہیں، اور جنہوں نے 11 مارچ کے سونامی کے تباہ کن زلزلے میں اپنا گھر کھو دیا، کہتی ہیں کہ حادثے کے بعد ان کے ذہن میں خیالات آتے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سونامی مجھے بھی بہا لے جاتا۔ ایک اور صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے آخر کار ایک کام تلاش کر لیا اور اب یہاں پوری محنت کرنا چاہتے ہیں۔

کئی لوگوں کے لیے کام کی تلاش اب بھی پہاڑ چڑھنے جیسی مشکل بنی ہوئی ہے۔

1 comment for “جاپان میں آفت سے بچ جانے والے سال کی مشکلات، اور حاصل شدہ سبق پر نظر ڈالتے ہیں

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.