شمالی کوریا کے مرد آہن کم جونگ اِل کی وفات نہ صرف پالیسی بلکہ پروٹوکول کے حوالے سے بھی مشکل سوالات اٹھا رہی ہے؛ جہاں دنیا کی بڑی طاقتیں اس بات پر تقسیم کا شکار ہیں کہ تعزیت کی جائے یا نہیں اور اگر کی جائے تو کیسے۔
لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کی موت کے لیے ملزم ٹھہرائے جانے والے شخص کی موت کے بعد امریکہ اور دوسری مغربی اقوام نے شدت سے ‘تعزیت’ کے الفاظ سے احتراز کیا ہے اور اس کے برعکس بیانات میں “شمالی کوریا کے عوام” کو مخاطب کیا گیا ہے۔
امریکہ جنوبی کوریا اور جاپان کا اتحادی ہے جن کے شمالی کوریا کے ساتھ تناؤ بھرے تعلقات ہے اور اس ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ریاست کی براہ راست زد میں ہیں۔
ٹوکیو میں چیف کیبنٹ سیکرٹری اوسامو فوجیمورا نے بدھ کو کہا کہ حکومت شمالی کوریا کو کوئی تعزیتی پیغام نہیں بھیجے گی چونکہ جاپانیوں کے اغوا کا مسئلہ ابھی تک حل طلب پڑا ہے۔
جنوبی کوریا، جو تکنیکی طور پر شمال کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، نے کہا کہ وہ نجی گروپوں کو اجازت دے گا کہ وہ تعزیتی پیغامات بھیج سکیں تاکہ نوجوان جانشین کم جونگ اُن کے بارے میں گہرے خدشات کے باوجود موجودہ حالات میں استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔
چین، جو شمالی کوریا کا مرکزی حلیف ہے، نے فوراً اپنے غم کا اظہار کیا اور صدر ہو جنتاؤ نے بیجنگ میں پیانگ یانگ کے سفارت خانے میں خراج تحسین پیش کیا۔ دوسرے ممالک نے کہا کہ وہ رسمی تعزیتی پیغامات بھیجیں گے جن میں روس، ایران اور انڈیا شامل ہیں۔
1 comment for “شمالی کوریا کے رہنما کی وفات سے اتحادیوں میں ‘تعزیت’ پر بحث”