ٹوکیو: مزار کے اہلکاروں کے مطابق، ٹوکیو کے متنازع یاسوکونی مزار، جسے اکثر جاپان کے جنگی جارحانہ پن کی نشانی سمجھا جاتا ہے، کے لکڑی کے مرکزی دروازے کو پیر کو علی الصبح آگ لگا دی گئی۔
اہلکاروں نے کہا کہ ہلکی سی آگ نے “دیوتاؤں کے دروازے”، جو 13 میٹر اونچا اور 28 میٹر چوڑا ہے، کو صبح چار بجے کے قریب جھلسا دیا۔
خاتون اہلکار کے مطابق، یہ دروازہ، جو 1934 میں تعمیر کیا گیا تھا اور بعد میں اس کے دونوں تختوں کو گل داؤدی کے ستارہ نما پھولوں سے سجایا گیا، زیادہ متاثر نہیں ہوا چونکہ مزار کے ایک سیکیورٹی گارڈ نے فوری طور پر آگ کو بجھا ڈالا تھا۔
“ہمارا خیال ہے کہ یہ آگ لگانے کا واقع تھا چونکہ سیکیورٹی کیمرے سے پتا چلتا ہے کہ آگ لگنے سے قبل کوئی اس پر مائع کا چھڑکاؤ کر رہا ہے،” خاتون اہلکار نے کہا۔
لوکل میڈیا کے مطابق پولیس نے بعد میں دو شیشے کے برتن ڈھونڈ لیے جن میں بظاہر کسی قسم کے ایندھنی تیل کی موجودگی کے آثار تھے۔
جاپانی میڈیا نے ٹوئٹر کی ایک پوسٹ کا حوالہ دیا، جسے بظاہر جاپان میں رہائش رکھنے والے کورین نے پوسٹ کیا تھا، جس میں مزار کو آگ لگانے کی دھمکی دی گئی تھی۔
تاہم ٹوکیو پولیس کے ترجمان نے افواہ کو رد کر دیا۔ “ہم اس واقعے سے قبل ہونے والی انٹرنیٹ پوسٹنگ سے آگاہ ہیں،” اس نے کہا۔ تاہم ہم انٹرنیٹ پر بادشاہ اور وزیراعظم کے خلاف روزانہ دھمکیوں بھری پوسٹس دیکھتے ہیں۔ ہم ایسے تمام کیسوں کی تفتیش کرتے ہیں۔
یاسوکونی کا مزار ایک شینتو معبد ہے جو جنگوں میں مارے جانے والے پچیس لاکھ جاپانیوں سے منسوب ہے، جن میں جنگ عظیم دوم کے 14 چوٹی کے جنگی مجرم بھی شامل ہیں۔
یہ جاپان اور اس کے ہمسایوں – خصوصاً چین اور جنوبی کوریا – کے مابین تناؤ کا ایک باقاعدہ ذریعہ ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ مزار بدترین جرائم کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔