مانیچی شمبن کو پتا چلا ہے کہ مالی سال 2006 سے 2010 کے دوران جامعہ ٹوکیو اور جامعہ کیوتو جیسی 11 چوٹی کی جامعات نے ایٹمی ٹیکنالوجی پر تحقیق کی مد میں حکومت اور انڈسٹری سے مجموعی طور پر 10.4 ارب ین کے فنڈز وصول کیے ہیں۔
کچھ اداروں نے سینکڑوں ملین ین سالانہ کے حساب سے فنڈز وصول کیے۔ جامعات کو موثر انداز میں اس وقت تک تحقیقی فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی جب تک وہ ایٹمی توانائی کے فروغ کے لیے تعاون کرتی رہیں، اور یہ مظاہرہ کریں کہ ایسے اعلی تعلیمی اداروں نے قومی پالیسی کی تیاری میں حصہ ڈالا ہے۔
مانیچی شمبن نے انتظامی اداروں کی معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت یہ اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں۔
مجموعی فنڈنگ کے 10.487 ارب ین میں سے، اداروں نے 9.3 ارب ین حکومت اور ایٹمی توانائی سے متعلق کمپنیوں سے ان کے لیے تحقیق کرنے کی مد میں لیے۔
مثال کے طور پر، وزارت تعلیم، کلچر، کھیل، سائنس اور ٹیکنالوجی نے مالی سال 2010 میں جامعہ فوکوئی کو فاسٹ بریڈر ایٹمی ری ایکٹر کو عملی استعمال میں لانے کی ایک کلیدی ٹیکنالوجی کی تحقیق و تیاری کے لیے 514 ملین ین دئیے۔
ان اداروں نے نجی کمپنیوں اور دوسری تنظیموں کے ساتھ مشترکہ تحقیقی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 410.83 ملین ین حاصل کیے۔ بجلی فراہم کرنے والی اور دوسری فرموں نے ان اداروں کو ایٹمی توانائی پر لیکچر وغیرہ کا اہتمام کرنے کے لیے 491 ملین ین دئیے۔
جامعات کے لحاظ سے، جامعہ کیوتو نے 3.36 ارب ین کے ساتھ حکومت اور نجی کاروباروں سے سب سے زیادہ فنڈز وصول کیے، جبکہ جامعہ ٹوکیو نے 2.559 ارب ین کے قریب اور ٹوکیو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے قریباً 1.67 ارب ین وصول کیے۔