یہ ڈیوس فورم پر سب سے زیادہ زیر گفتگو موضوع تھا، جس نے ماند پڑی عالمی معیشت کی گفتگو کے دوران لوگوں کے تصور کو اپنی گرفت میں لیے رکھا: یہ ایک مشین ہے جو زندگی کے کوڈ یعنی ڈی این اے کو چند گھنٹوں میں کریک کر کے طب کے میدان میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔
مریضوں کو اب کئی کئی ہفتوں تک یہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا کہ انہیں سرطان ہے یا نہیں اور ان کے معالجین فوراً ہی جان جائیں گے کہ ان کو کیا بیماری ہے، جس سے انہیں متعلقہ معالجے ٹھیک ٹھیک انداز میں لاگو کرنے اور نقصان دہ تاخیر اور غلطیاں کرنے سے بچنے میں مدد ملے گی۔
کسی وبائی جرثومے کے پھیلاؤ سے نبرد آزما طبی اہلکار اس جرثومے کی نسل کا اتا پتا لگا سکیں گے اور ہفتوں یا مہینوں کی تاخیر کیے بغیر چند گھنٹوں میں ہی اس سے علاج کی منصوبہ بندی شروع کر سکیں گے، جس سے ہزاروں زندگیاں بچانے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ اس انقلاب کے پیچھے موجود آدمی کا نام جوناتھن روتھبرگ ہے، جو ماہر بائیو ٹیکنیشن اور آئن ٹورنٹ کے سی ای او ہیں۔ امریکی فرم لائف ٹیکنالوجیز کی ملکیت یہ کمپنی، آئن پروٹون تیار کرتی ہے جو دنیا کی سب سے پہلی سیمی کنڈکٹر پر مشتمل جینیاتی سلسلہ بندی کی مشین ہے۔
یہ اپنی طرز کی پہلی مشین ہے جو پورے انسانی جینیاتی کوڈ (ڈی این اے) کو ایک ہزار ڈالر سے کم لاگت میں پڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے ڈیوس میں اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلی ایسی مشین ہے جو سارے انسانی جینوم کو دو گھنٹوں میں پڑھ سکتی ہے۔
اس سے پہلے والی مشینیں آدھے ملین ڈالر سے زیادہ کا خرچہ کرواتی تھیں اور جینوم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہفتوں کا وقت بھی لگاتی تھیں۔
ان کے مطابق، یہ اس مشین اور ہماری پہلی تیار کردہ چپ کی بدولت ممکن ہوا کہ ای کولائی وبا کے بارے میں پتا چلا اور ہمیں اس وبائی جرثومے کو سمجھنے، اس کو ٹریک کرنے اور اس کی تشخیص کرنے کی سہولت ملی۔
آئن پروٹان کی دو منفرد خصوصیات ہیں۔ اولاً یہ کہ یہ مشین جین کی سلسلہ بندی کے لیے سیمی کنڈکٹر چپ استعمال کرتی ہے، جبکہ اس سے قبل محققین کو ڈی این کے کے ٹکڑے انتہائی طاقتور خوردبینوں تلے رکھ کر ان کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔
دوسری خصوصیت اس کا سائز ہے۔ موجودہ ماڈل کسی فوٹو کاپی مشین کی طرح ایک میز پر آ جاتا ہے، اور مناسب حجم ہونے کی وجہ سے یہ ایک دن سائنس فکشن اسٹار ٹریک کے ٹرائی کوڈر کی طرح مختصر ہو کر ہاتھ پر سمانے کے قابل بھی ہو جائے گی۔