محمد انور میمن
مسلمانوں کے تمام تہوار اسلامی تقویم کے مطابق منائے جاتے ہیں ، جو دراصل قمری تقویم (Lunar Calendar) ہے ۔ ہر اسلامی مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ اسلامی معاملات میں رویت ہلال ایک اہم ضرورت ہے ۔ اسلامی ممالک میں یہ کام حکومتیں انجام دیتی ہیں، اور رویت ہلال کے لیے سرکاری طور پر کمیٹی یا پینل تشکیل دیا جاتا ہے ، جبکہ غیر اسلامی معاشروں میں یہ ذمہ داری اسلامی تنظیمیں اٹھاتی ہیں ۔
جاپان میں طویل عرصے سے رویت ہلال کا اعلان اسلامک سینٹر جاپان کرتا آیا ہے ۔ تاہم ، یہ اعلان رمضان اور عیدین کے حوالے سے صرف رمضان، شوال اور ذی الحج کے آغاز کے اعلان کے بارے میں ہوتا تھا ۔ رویت ہلال کی اس ذمہ داری کو جزوی طور پر نبھانے کے باوجود ، اسلامک سینٹر کی اس کاوش کو مسلمانوں میں عمومی پذیرائی حاصل رہی ، کیونکہ اس کے باعث جاپان بھر کے مسلمان مل جل کر رمضان المبارک اور عیدین کا اہتمام کرتے رہے ۔ اسلامک سینٹر کے اعلانات پر جاپان میں مقیم مسلمانوں کا اجماع ہونے کے باعث، جاپان میں کبھی دو عیدوں کا مسئلہ بھی پیش نہیں آیا ۔
اسلامک سینٹر کے رویت ہلال کے اعلانات کی دو بنیادیں تھیں ۔ پہلی مقامی کاوش ، اور دوسرے ملائیشیا کی پیروی ۔ مقامی کاوش کے طور پر ٹوکیو کے مسلمان ٹوکیو ٹاور یا دیگر بلند مقامات پر جاکر چاند دیکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹوکیو سے دور کے علاقوں کے مسلمانوں سے بھی رابطہ کیا جاتا تھا، تاکہ اگر کسی اور علاقے میں چاند نظر آئے تو اس کی اطلاع مل سکے ۔ جاپان میں چاند نظر نہ آنے کی صورت میں ، علماء کرام کے فتاویٰ کے مطابق، قریب ترین اسلامی ملک ملائیشیا کی پیروی کرتے ہوئے رویت ہلال کا اعلان کیا جاتا تھا ۔
کئی سالوں تک یہ نظام چلتا رہا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر چاند دیکھنے کی کوششیں کم ہوتی گئیں اور ملائیشیا کے اعلان پر انحصار بڑھتا گیا ۔ اس معاملے میں کبھی اسلامک سینٹر کی جانب سے مسلمانوں سے چاند دیکھنے کی کوشش کی درخواست بھی سامنے نہیں آئی، اور لوگوں نے یہ کام اسلامک سینٹر کے حوالے کردیا ۔
رویت ہلال کے اعلان کے لیے ماہ صفر یا رمضان کی 29 تاریخ کو اسلامک سینٹر میں ایک اجتماع ہوتا تھا، جس میں رسماً مقامی رویت کی اطلاع نہ ہونے کے باعث ملائیشیا کے باضابطہ سرکاری اعلان کے انتطار کی بات کی جاتی تھی ۔ شرکاء کے اتفاق کے بعد ملائیشیا کے سرکاری اعلان کا انتظار کیا جاتا تھا ، اور اس کے مطابق چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کیا جاتا تھا ۔ شروع میں یہ اعلان اسلامک سینٹر کی جانب سے کیا جاتا تھا، جبکہ بھارت کے عالم دین سلیم الرحمٰن خان کی اسلامک سینٹر میں شمولیت کے بعد اسے رویت ہلال کمیٹی جاپان کا اعلان کہا جانے لگا ۔ اسلامک سینٹر میں رویت ہلال کے لیے ہونے والی میٹنگ میں کوئی بھی مسلمان شریک ہو سکتا تھا ، اور یہ کوئی باقاعدہ منتخب کمیٹی یا ادارہ نہیں تھا ۔ باقاعدہ رویت ہلال کمیٹی کب تشکیل دی گئی ، اسے کس نے ترتیب دیا، اورسلیم الرحمٰن خان کو کب اس کا چیئرمین منتخب کیا گیا، یہ سب کچھ غیر واضح ہے ۔ البتہ حالیہ سالوں میں نیٹ اخبارات کو اسلامک سینٹر سے بھیجی جانے والی فیکس، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی سلیم الرحمٰن خان کے نام سے ہوتی تھی ۔ اگر رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں کوئی اجلاس ہوا بھی تھا ، تو جاپان کی مسلم کمیونٹی کی اکثریت اس بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ اور نہ ہی اس سلسلے میں آئندہ کبھی کچھ سننے میں آیا ۔ اگر کمیٹی کے لیے ایک چیئرمین کو منتخب کیا بھی گیا تھا، تو یقیناً یہ انتخاب تاحیات نہیں ہوگا ۔ لیکن جب تک سلیم الرحمٰن خان اسلامک سینٹر سے وابستہ رہے ، اس بارے میں کبھی کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ۔
تقریباً دو سال قبل سلیم الرحمٰن خان کی اسلامک سینٹر سے علیحدگی کے بعد مسلم کمیونٹی میں یہ مسئلہ سامنے آیا کہ آئندہ رویت ہلال کا اعلان اسلامک سینٹر کی جانب سے ہونا چاہئے یا سلیم الرحمٰن خان بحیثیت چیئرمین رویت ہلال کمیٹی یہ اعلان کریں گے ۔دونوں اطراف کے اپنے اپنے دلائل تھے، اور اس موقع پرخصوصاً یہ بات بھی سامنے آئی کہ نہ تو کمیٹی باقاعدہ منتخب ادارہ ہے ، اور نہ اس کے چیئرمین ۔ چنانچہ گزشتہ سال کے رمضان المبارک سے کچھ قبل بھاگم دوڑ میں اس سلسلے میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا ، اور سلیم الرحمٰن خان کو تین سال کے لیےرویت ہلال کمیٹی کا چیئرمین، جبکہ عقیل صدیقی کو اس کا سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔ دیر آید درست آید کے مصداق ، رویت ہلال کمیٹی کے انتخابات ہونا تو یقیناً ایک اچھی پیشرفت ہے، تاہم خود کمیٹی کس طرح تشکیل دی گئی ہے ، اور کون کون سے افراد یا ادارے اس کے رکن ہیں، یہ بات انتہائی غیر واضح ہے ۔ اس لحاظ سے یہ مناسب ہوتا اگر کمیٹی کے عہدیداران کا صرف ایک سال کے لیے انتخاب کیا جاتا ، اور اس دوران اسے باقاعدہ ادارے کی شکل دی جاتی ۔نئے عہدیداروں کے انتخاب کے باوجود کمیٹی کی جانب سے تمام مہینوں کے آغاز کے لیے بروقت اعلان سامنے نہیں آرہے، حتیٰ کہ نئے ہجری سال کے آغاز کا اعلان بھی کئی روز کی تاخیر سے کیا گیا۔ جبکہ کمیٹی کے تاخیر سے کئے جانے والے اعلانات بھی صرف ملائیشیا کے سرکاری اعلانات کی پیروی ہوتے ہیں ۔ جاپان میں رویت ہلال کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔ حالانکہ اگر ایک سو فیصد ملائیشیا کی پیروی ہی کی جانی ہے، تو اس کمیٹی کی کیا ضرورت ہے ۔ اسلامک سینٹر یا کوئی اور ادارہ بھی ملائیشیا سے اطلاعات لے کر اس کا اعلان کرسکتا ہے ۔…(جاری ہے)