اوتسوچی: اوتسوچی کے دو منزلہ ہوٹل کی چھت پر اٹک جانے والی کشتی اب وہاں نہیں ہے، اور بندرگاہ پر پیدا ہونے والا بیشتر ملبہ بھی اب صاف کر دیا گیا ہے۔ تاہم قصبہ اب بھی فالج زدہ سا لگتا ہے، جو صحت یاب ہونے کے قابل نہ ہو اور اپنی حالت بدلنے پر بھی راضی نہ ہو۔
جاپان کی سونامی سے تاراج شدہ ساحلی پٹی پر اوپر سے نیچے تک سڑکیں مرمت کی جا چکی ہیں اور اب کاروں سے بھری رہتی ہیں جو لوگوں کو بنے بنائے مکانوں میں واپس لے جا رہی ہیں جنہیں ان لوگوں نے پچھلے سال گھر کہنا سیکھا ہے۔
تاہم مٹے مٹے سے نشان ان جگہوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے۔
ریکوزنتاکا جیسے قصبوں میں گھروں سے بھری گنجان آباد گلیوں کو وحشی سونامی لہروں نے ماچس کی تیلیوں کی طرح بکھیر ڈالا۔ اس کے بعد مہینوں تک بچوں کے کھیلنے کے میدانوں کی جگہ ملبے سے بھرے میدان پھیلے رہے۔ کچھ اور جگہوں پر کہیں کوئی آدھا مکان اکیلے چوکیدار کی طرح کھڑ اہے جس کا بقیہ آدھا سونامی کا نوالہ بن گیا، اور اس کے مالکان کا کوئی پتا نہیں اور کسی نے اسے گرانے کے لیے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
تاہم ان قصبوں میں رہنے والے لوگ اب بھی سوچتے ہیں: آگے کیا؟
شاید ان جگہوں کو تاریخ کا حصہ بن جانا چاہیے، اور ان کی جگہ مزید اندرونی علاقوں میں تعمیر شدہ بڑی بڑی آبادیوں کو لے لینی چاہیے۔ “ہمیں اسے ایسی جگہ بنانا ہو گا جہاں نوجوان رہ سکیں،”۔
78 سالہ شیماکو کاریا کہتی ہیں کہ وہ اپنی بقیہ زندگی یہاں گزارنے کے لیے پرعزم ہیں۔ پچھلے بارہ مہینوں میں بڑے پیمانے پر ہجرت دیکھی گئی ہے جس سے قصبے کی آبادی 17 فیصد تک کم ہو گئی ہے چونکہ نوجوان لوگ کام کی تلاش میں گھر چھوڑ گئے ہیں۔
“یہاں کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے نہ کام کرنے کی جگہ، نہ کھیلنے کی جگہ،” ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے ویران پڑی ریل کی پٹڑی کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا، جس پر سے قریباً ایک سال سے کوئی ٹرین نہیں گزری۔ “مجھے نہیں لگتا کہ میں یہاں اپنے خواب پورے کر سکوں گا،”۔