ٹوکیو: فوکوشیما بحران سے پہلے تک جاپان میں خوراک کے خریداروں کے لیے فوڈ سیفٹی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ تاہم اب بہت سوں نے حکومتی ضمانتوں پر اپنا اعتماد کھو دیا ہے اور انہیں خدشہ رہتا ہے کہ تابکاری ان کے کھانے کو آلودہ کر سکتی ہے۔
پچھلے سال کے سونامی سے ایٹمی بجلی گھر پر ہونے والے پگھلاؤ نے ہوا اور پانی میں زہریلے تابکار ذرے پھیلا دئیے، جس نے ایٹمی بجلی گھر کے نزدیک اگنے والی فصلوں اور سمندری غذا پالنے والے پانیوں کو آلودہ کر دیا۔
ایٹمی بحران کے فوراً بعد ٹوکیو نے اعلان کیا تھا کہ وہ خوراک میں اجازت شدہ تابکاری کی مقدار کو پانچ گنا بڑھا رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پہلے جو پیداوار پھینک دی جاتی اب وہ اچانک ٹھیک ہو گئی تھی۔
پلانٹ سے تھوڑے سے فاصلے پر ہی اگائے گئے چاولوں کو سپاٹ پر نمونہ بندی کے بعد محفوظ قرار دے دیا گیا تاہم بعد کے نتائج نے واضح کیا کہ تابکاری کی مقدار نئی حدوں سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
جامعہ کیوتو کے ریسرچ ری ایکٹر انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر ہیراؤکا کوئیدی، نے کہا کہ تابکاری کی پچھلی “محفوظ” حد پانچ گنا زیادہ بڑھانے کے سرکاری اعلان نے ان شبہات کو فروغ دیا کہ حکومت صارفین کے مفاد میں عمل کرنے کی بجائے تیار کنندگان کے مفاد میں عمل کر رہی ہے۔
ائیون کے نائب صدر یاسوہیدی چیکازاوا کا کہنا ہے کہ تابکاری کی ‘محفوظ حد’ بے معنی ہے چونکہ صارفین اسے تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔