فوکوشیما: یوشیکو اوتا اپنی کھڑکی بند رکھتی ہے۔
یہ تابکاری بھری زندگی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اوتا کے پڑوس میں 60 کلومیٹر دور واقع سونامی زدہ ایٹمی بجلی گھر نے ایک سال قبل تابکاری اگلنا شروع کر دی تھی۔
تابکاری اب بھی بندے پڑے فوکوشیما ڈائچی ایٹمی بجلی گھر سے خارج ہو رہی ہے، اگرچہ 11 مارچ کے زلزلے و سونامی کے ابتدائی ہفتوں کے مقابلے میں اس کی رفتار کم ہے۔
حکومتی تسلیوں پر عوامی شبہات اس وقت بڑھے جب فوکوشیما صوبے کے مشیر صحت کے طور پر متعین کیے گئے سونیچی یاماشیتا نے بار بار کہنا شروع کر دیا کہ 100 ملی سیورٹس سالانہ تابکاری کی زد میں آنا صحت کے لیے محفوظ ہے۔ آفت سے قبل، جاپانی لوگ 1 ملی سیورٹ سالانہ کی قدرتی طور پر پس منظر میں پائی جانے والی تابکاری کی زد میں آتے تھے؛ جبکہ امریکہ میں یہی حد اوسطاً 3 ملی سیورٹس تک سالانہ ہے۔ تاہم ابتدا میں پلانٹ کے دھماکوں سے تابکاری کے بڑے اخراج ہوئے۔ اب کچھ لوگ تابکاری کی مقدار ناپنے کے لیے اپنے آلات استعمال کر رہے ہیں۔ فوکوشیما کے جنوب مشرق میں میامی سوما کے ہسپتال میں ایک بچے میں 2653 بیکرل تابکار سیزیم کی مقدار پائی گئی۔
کونی ہیکو تاکیدا، جو ایٹمی اور ماحولیاتی ماہر ہیں اور تابکاری کے خدشات کے بارے میں زیادہ بولنے والوں میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر خدشات کی وضاحت کر دی جائے تو لوگ کم خوفزدہ ہوتے ہیں۔
1986 میں چرنوبل کے حادثے کے بعد 6000 سے زائد لوگوں کا تھائی رائڈ کینسر میں مبتلا ہونے کا تعلق واضح طو رپر بچوں اور لڑکوں لڑکیوں میں تابکار آئیوڈین کی زیادہ مقدار سے تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کی تحقیق کے مطابق فوکوشیما میں آئیوڈین کی زد میں آنے کی شرح (اور مقدار) چرنوبل سے کم ہے۔ پھر بھی والدین پریشان ہیں چونکہ چرنوبل کا کینسر بھی حادثے کے کئی سال بعد سامنے آنا شروع ہوا تھا۔
فوکوشیما صوبے میں 66 ہزار لوگوں پر مشتمل شہر داتے کے مئیر سوجی نیشیدا کہتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی مرکزی حکومت پر کم سے کم انحصار کر کے اور اپنی توقعات میں ترمیم کر کے مستقبل کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پانچ ملی سیورٹس سالانہ تابکاری -جاپان میں عمومی پس منظر میں موجود تابکاری سے پانچ گنا زیادہ- ایک حقیقت پسندانہ حد ہے۔