سیاستدانوں اور ایٹمی صنعت میں ‘گھریلو’ تعلقات جاری

فوکوشیما: فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کے تین ری ایکٹروں کے پگھلاؤ کا شکار ہونے کے فوراً بعد حکومت نے قسم اٹھائی تھی کہ ایٹمی صنعت اور نگران ایجنسیوں کے مابین ‘گھریلو’ تعلقات کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے۔ نگران ایجنسیاں اب بھی وزارت ماحولیات کی بجائے وزارت تجارت کا حصہ ہیں، جو ایٹمی توانائی کو فروغ دیتی ہے جبکہ حکومت نے مہینوں قبل انہیں وزارت ماحولیات میں منتقل کرنے کی تجویز دی تھی۔

صرف ایک پلانٹ نے ہائیڈروجن دھماکے روکنے والے روشندان نصب کیے ہیں، جن کی وجہ سے ایٹمی بحران میں تیزی آئی تھی۔ جاپان کی نگران ایجنسیوں کی طرح، امریکی نیوکلئیر ریگولیٹری کمیشن کسی ایسی حکومتی ایجنسی کے ماتحت نہیں جس کا مقصد ایٹمی توانائی کو فروغ دینا ہے، جو کہ امریکہ کے تناظر میں امریکہ کا شعبہ برائے توانائی ہے۔

فوکوشیما ڈائچی ایٹمی بجلی گھر پر11 مارچ کی آفت نے بڑے پیمانے پر اس مطالبے کو جنم دیا کہ جاپان کی ایٹمی سیفٹی ایجنسی کو وزارت تجارت سے الگ کر کے اسے مزید آزاد و خودمختار بنایا جائے۔ بہت سے شعبوں میں ریٹائرشدہ حکومتی ملازمین کو ملازمت کی پیشکش کرنا اتنی عام بات ہے کہ جاپانی اسے ‘اماکوداری’ یا ‘جنت سے نزول’ کا نام دیتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے پچھلے سال کے ایک جائزے سے پتا چلا تھا کہ تین مرکزی ایٹمی نگران باڈیوں کے 95 لوگوں میں سے 26 ان صنعتوں یا گروپس سے وابستہ تھے جو  عموماً حکومتی پیسے کے ساتھ ایٹمی توانائی کو فروغ دیتے ہیں۔ حکومت نے پتا لگایا ہے کہ پچھلے 50 سالوں میں وزارت تجارت کے 68 سابقہ اہلکاروں نے ایٹمی توانائی کی کمپنیوں میں ملازمت اختیار کی۔

نگرانوں میں سے سب سے پہلے جس شخص نے اس ملازمت کا آغاز کیا ہو سوسومو ناکامورا تھا، جو حکومتی نیوکلیر اینڈ سیفٹی ایجنسی کا سابقہ سینئر اہلکار تھا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.