تاہم 53 فیصد نے کہا کہ وہ حقیقت پسندانہ قلیل مدتی پالیسی کے تحت بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے ایٹمی پلانٹ دوبارہ چلانے کی اجازت دیں گے۔

پچھلے سال فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کے حادثے کے بعد سے ملک کے تجارتی ایٹمی بجلی گھر حفاظتی جانچ کے مراحل میں سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے 54 میں سے صرف دو ری ایکٹر اس وقت آنلائن ہیں۔

جاپانی کاروباری حلقوں کو خدشہ ہے کہ توانائی کی قلت پہلے ہی لنگڑاتی ہوئی معیشت کو مزید سست رفتار کر دے گی، تاہم موجودہ ایٹمی پلانٹس کے قریب رہنے والے لوگ بند پڑے بجلی گھروں کی جلد بحالی کے مخالف ہیں، اور کچھ اس عمل کو روکنے کے لیے مقدمات بھی کر رہے ہیں۔

سروے کے مطابق حکومت کی طرف سے دسمبر میں اعلان کرنے کے بعد، کہ فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر مستحکم حالت پر لایا جا چکا ہے، 92 فیصد لوگ اس بارے میں پریشان تھے۔

وزیر اعظم یوشیکو نودا کی حکومت اس سال کے آخر تک جاپان کی مجموعی توانائی پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس میں ایٹمی بجلی گھروں پر بھی پالیسی شامل ہو گی۔

نودا نے کہا ہے کہ جاپان کو ایٹمی توانائی پر انحصار کم سے کم کرنا چاہیے۔ نودا کا یہ بیان ان کے پیشرو ناؤتو کان کے سخت بیان کے مقابلے میں نرم سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ جاپان کی حتمی منزل ایٹمی توانائی سے پاک ملک ہونا چاہیے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.