تویوہاشی: یاماتو ہیرائی جب اپنے ساتھی جاپانی نژاد برازیلیوں کے ساتھ ساکر کھیلنے کے لیے جاپان وارد ہوئے تو انہیں ابتدائی لائن اپ میں جگہ بنانے کے لیے بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن آج کل کھیل کے لیے بمشکل ہی پورے پورے کھلاڑی دستیاب ہیں۔ بہت سے جو برازیلی جو جاپان میں پلے بڑھے اب اپنے وطن برازیل کے لیے جاپان کو چھوڑ چکے ہیں تاکہ برازیل کی جوبن پرآئی معیشت میں اپنی قسمت تلاش کر سکیں جبکہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت کو آگے بڑھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
برازیل کے ادارہ جیوگرافی و شماریات کے مطابق 2000 تک برازیل میں جاپانی خون رکھنے والے 14 سے 15 لاکھ لوگ موجود تھے۔
“بہت سارے برازیلی یہاں پیسہ بچائیں گے اور برازیل میں گھر خریدیں گے،”۔ “حتی کہ ڈاکٹر بھی جاپان میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اپنے ذاتی کلینکس کھولیں گے”۔ ماضی میں برازیلی اپنی آنکھوں میں خواب سجائے اور منزل پانے کی تمنا لیے جاپان آتے تھے۔
جاپان کے برازیل سے تعلقات کی بڑی مثال سابقہ جاپانی بین الاقوامی فٹ بالر مارکس “تولیو تاناکا” ہیں، جو برازیل میں پیدا ہوئے، ان کے اجداد میں جاپانی، برازیلی اور اطالوی خون شامل ہے، جس کے بعد وہ ٹین ایج میں جاپان منتقل ہو گئے۔
1989 کے بعد جاپان میں برازیلی آبادی بہت تیزی سے بڑھی جب ٹوکیو حکومت نے جاپانی نژاد برازیلیوں پر جاپان میں داخلے پر پابندی ہٹا تیسری نسل تک ہٹا دی، جس کا مقصد جاپان میں افرادی قوت کی کمی پر قابو پانا تھا۔
اگرچہ حالیہ دنوں میں برازیلی واپس اپنے ملک جانا پسند کر رہے ہیں تب بھی وہ چینی اور کورین نژاد لوگوں کے بعد جاپان میں تیسرا بڑی نسلی گروہ ہیں۔ “میں واپس جانے اور اپنے وطن میں قسمت آزمانے کا اس لیے سوچتا ہوں چونکہ برازیل مستقبل کا ملک ہے۔”