ٹوکیو: مائیکل ووڈ فورڈ، جنہوں نے اولمپس کے حسابی اسکینڈل کے خلاف آواز بلند کی تھی، جمعے کو اس کے شئیر ہولڈرز کے اجلاس میں کھڑے ہوئے، اور یہ جاننے کا مطالبہ کیا کہ انہیں چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا۔
جاپانی کیمرہ اور طبی سامان ساز ادارہ بڑے پیمانے کے مالیاتی خسارے کے اسکینڈل میں ملوث پرانی انتظامیہ کو نکالنے کے بعد نئی انتظامیہ کے لیے شئیر ہولڈرز کی منظوری کا منتظر تھا۔
ووڈ فورڈ کو اکتوبر میں نکال دیا گیا تھا جب انہوں نے اولمپس کے مشکوک حساب کتاب پر آواز بلند کی۔ ٹوکیو سے تعلق رکھنے والی کمپنی نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے 117.7 ارب ین کے سرمایہ کاری نقصانات چھپائے جو 1990 کے عشرے تک پرانے تھے۔
کمپنی نے یہ کہتے ہوئے ووڈ فورڈ کے سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ یہ معاملہ برطانیہ میں زیر سماعت ہے جہاں ووڈ فورڈ اپنی برخاستگی کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
نئی انتظامیہ کی منظوری کے ساتھ ساتھ کمپنی کی تمام تر تجاویز قریباً ایک ہزار لوگوں کی پر جوش تالیوں میں پاس ہو گئیں جنہوں نے نا نا کرنے والوں کی چیخ و پکار کے دوران بھی تین گھنٹے طویل اجلاس میں شرکت کی۔
جاپان کے اداراتی سرمایہ کاروں جیسا کہ بینکوں، اور “کراس شئیر ہولڈنگ” جیسے نظام کہ جس میں کمپنیاں ایک دوسرے کے شئیرز کی مالک ہوتی ہیں، کی وجہ سے اولمپس کے پاس سرمایہ کاروں کے ووٹ پر مضبوط گرفت موجود تھی۔
صحافیوں نے اسی ہوٹل کے ایک الگ کمرے میں مانیٹرز پر شئیر ہولڈرز کے اجلاس کو دیکھا۔
نئے 11 اراکین پر مشتمل بورڈ میں آٹھ بیرونی اراکین شامل ہیں جن میں اولمپس کے مرکزی بینک سومی موتو متسوئی بینکنگ کارپ کے ایک سابقہ عہدے دار چئیرمین کے طور پر شامل ہیں۔