7 مئی سے خلائی پروازوں میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے جب عالمی خلائی اسٹیشن کے لیے پہلا تجارتی مشن لانچ کیا جائے گا۔ اسپیس شٹلوں کی سبکدوشی کے بعد ناسا خلائی پروازوں کے سلسلے میں خجل کن مسائل سےنمٹنے کے لیے اب نجی شعبے کی طرف دیکھے گا۔
اگرچہ یورپی خلائی ایجنسی نے بھی خلائی اسٹیشن پر سامان رسد پہنچایا ہے، جس میں ایک پرواز مارچ میں گئی۔ تاہم لاس اینجلس سے تعلق رکھنی والی اسپیس ایکسپلوریشن ٹیکنالوجیز کارپوریشن (اسپیس ایکس) اب خلائی شٹل کی جگہ لینے کی تیاری کر رہی ہے۔
اسپیس ایکس کو 2002 میں پے پال کے شریک بانی ایلون مسک نے شروع کیا تھا جس کا مقصد کم نرخوں پر خلائی پروازوں کی سہولیات مہیا کرنا تھا۔ خلائی شٹلوں کی سبکدوشی کے تناظر میں ناسا نے اسپیس ایکس کو 1.6 ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا تھا جس کے تحت وہ عالمی خلائی اسٹیشن کو رسد پہنچانے کی 12 پروازیں چلائے گا۔
اسپیس ایکس کا پہلا مشن 30 اپریل کو خلا میں جانا تھا، تاہم یہ تاخیر کاشکار ہو گیا۔
اسپیس ایکس کا دوبارہ قابل استعمال کیپسول، جس کا نام ڈریگن ہے، دو مرحلوں والے فیلکن 9 راکٹ کے ذریعے لانچ کیا جاتا ہے۔
اگرچہ ناسا کا ٹھیکہ صرف عالمی خلائی اسٹیشن پر رسد پہنچانے کے لیے ہے، تاہم اسپیس ایکس نے ڈریگن کو خلا نوردوں کو لے جانے کے لیے بھی ڈیزائن کیا ہے۔
“یہ نئے ایکسپلورر خلائی پرواز کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو لنڈ برگ کی کمرشل ایوی ایشن کے سلسلے میں تھی،” ناسا کے ایڈمنسٹریٹر چارلس بولڈن نے 2010 میں اسپیس ایکس کی طرف سے اولین پرواز کے مظاہرے کے بعد کہا تھا۔
اسپیس ایکس دنیا کا سب سے طاقتور راکٹ فیلکن ہیوی بھی تیار کر رہا ہے جو خلائی شٹل سے دوگنا وزن اٹھانے کی کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔