واشنگٹن: جاپان اور پینٹاگون کے نئے لڑاکا جیٹ ایف 35 کی پشت پناہی کرنے والے دوسرے ممالک اس پروگرام کی بڑھتی ہوئی لاگتوں اور متواتر التواء پر تشویش کا شکار ہیں، جبکہ کچھ ممالک اس میں سرمایہ کاری کو ملتوی یا کم کر رہے ہیں اور یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ آیا یہ طیارہ اپنے وعدے پر پورا اترے گا بھی یا نہیں۔
امریکہ جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر نامی اس منصوبے کی تعریفوں کے پُل باندھتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا عجوبہ ہے جو دشمن کے ریڈار کو غچہ دے کر نکل جائے گا اور اتحادی افواج کو امریکی جنگی جہازوں کے شانہ بشانہ آسمانوں میں اڑنے کی سہولت دے گا۔
ایف 35 منصوبے کے سربراہان کے مطابق، “آنے والے عشروں میں جے ایس ایف مستقبل کے اتحادی آپریشنز کے لیے دھُرے کی کیل بن جائے گا اور صلاحیتوں کے ایک بڑے فرق کو کم کرنے میں مدد دے گا جس سے ہمارے دفاعی اتحادیوں کی طاقت میں اضافہ ہو گا”۔
2001 میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کے لیے عالمی طور پر آٹھ ممالک کا ایک کنسورشیم تشکیل دیا گیا تھا تاکہ طیارے کی لاگت کا خرچ اٹھا جا سکے اور طیارے کی پیداوار کے بعد گاہک تلاش کرنے کی بجائے مستقبل کے خریداروں کو پہلے ہی تیار کر لیا جائے۔
تاہم اس منصوبے پر خدشات بڑھ رہے ہیں۔ وزیر دفاع فلپ ہیمنڈ کے مطابق برطانیہ نے طیارے کی خریداری اور تعداد کا فیصلہ 2015 تک کے تزویراتی جائزے تک ملتوی کر دیا ہے۔
ناروے اور کچھ دوسری حکومتوں نے اس قدر نفیس طیارے کی ضرورت پر اٹھنے والے شبہات کے بعد طے شدہ خریداریوں کی تعداد موخر کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
ٹئیل گروپ کے ایرو اسپیس تجزیہ نگار رچرڈ ابولافیہ کے مطابق، “جبکہ دوسرے ممالک اپنی حمایت پر روک لگا رہے ہیں، ایف 35 کا مستقبل ایک کھلا سوال بن کر کھڑ اہے”۔
“ایک عشرے سے زیادہ عرصے کے بعد صرف ایک ثابت قدم عالمی گاہک بچتا ہے، یعنی جاپان،” انہوں نے اے ایف پی کو بتایا۔
“دوسری صورت میں دوسرے ممالک کے لیے صرف 20 سے 25 آزمائشی طیارے ہی تیار ہیں۔ بس یہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ابھی کچھ جان باقی ہے،” ابولافیہ نے مزید کہا۔
ہر چیز ایف 35 کی قیمت اور صلاحیتوں پر منحصر ہو گی۔ “اگر اس میں کچھ ہے تو یہ بکے گا،” ابولافیہ نے کہا، اور مزید اضافہ کیا کہ ابھی ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہی سب سے بڑا راز ہے۔