تابکاری: جاپان کا اندرونی خفیہ دشمن

ٹوکیو: 11 مارچ، 2011 سے قبل اوسط جاپانی گھرانے کے لیے کھانے کی خریداری ایک سیدھا سادھا معاملہ تھا۔

عرصہ دراز سے قائم روایات کی پیروی کرتے ہوئے خاتون خانہ -جو قریباً اب بھی ہمیشہ خاتون انچارج ہوتی ہے- اس بات کو ہر ممکنہ حد تک یقینی بناتی کہ کھانے کی میز پر آنے والی اشیاء جاپانی مٹی اور پانیوں سے حاصل شدہ ہوں۔
لیکن فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کا حادثہ، جو تباہ کن زلزلے و سونامی سے وجود میں آیا، نے جاپانی کھانے کی پاکیزگی کے اس قرنوں پرانے یقین کو بکھیر دیا ہے۔
اپنے خدشات کو کم کرنے کے لیے بہت سے جاپانی صارفین نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔
ایک مشہور چین کے جنرل ڈائریکٹر یاشیدا چیکازاوا کہتے ہیں کہ تابکاری کی آلودگی کے لیے “حفاظتی حد” کا قیام، جیسا کہ حکومت نے کیا، کافی نہیں تھا: “صرف وہ مصنوعات جن میں تابکاری کی حد نا قابل پیمائش کے درجے تک کم ہے اب درآمد شدہ مصنوعات کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔”
“ائیون کارپوریشن کی “زیرو ٹالرینس” کی پالیسی پر پہلے پہل متاثرہ علاقوں کے فراہم کنندگان نے شدید احتجاج کیا، لیکن پھر انہیں سمجھ آئی کہ بے چین عوام کو اطمینان دلانے کا یہی طریقہ تھا،” انہوں نے کہا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عقلی خدشات کے علاوہ تابکاری تصوراتی اور غیر حقیقی پریشانیوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ “لوگ تابکاری کی آلودگی کو یوں سمجھتے ہیں جیسے وہ کسی (چھوت کی) بیماری کی آلودگی ہے – جذباتی طور پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقدار نہیں بلکہ چھو جانے کا معاملہ ہے،” جان ٹوبے نے کہا، جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سانتا باربرا کے پروفیسر اور جذبات کے ارتقائی ماخذات کے ماہر ہیں۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.