فردوسی فارس کا ایک مشہور شاعر گذرہ ہے جس نے شاہنامہ وغیرہ لکھا۔ فرددوسی کی طرح اور بھی ہزاروں عظیم شاعر اورعظیم قصیدہ گو فارس میں گذرے ہیں۔ان تمام شعرا کا کلام جادہ فطرت سے انحراف پذیر معلوم ہوتے ہیں۔
اس انحراف درزی کا یہ سبب ہوا کہ شاہان کی مدح میں طرح طرح کی مضامین گڑنے پڑے۔
ہر طرح کے استعاروں کو اختیار کرنا پڑا ہے اور مبالغہ پردازی کی ان راہوں میں چلنا پڑا ہے جن کو فطرت کی راہ سے کوئی علاقہ نہیں۔
پڑھنے کو ملتا ہے کہ رزمی اور بزمی شاعریوں اور قصیدہ نگاریوں کے ساتھ ساتھ تصوف آمیز شاعری بھی زور پکڑتی گئی، تصوف کا مذاق یا تصور مسلمانوں میں اول اول ملک فارس کی طرف سے داخل ہوا۔اس کا سبب بھی وہی شاہنامہ ہوا۔فردوسی کے بہت سے مقالے اور مضمون اخلاقی اور متصوفانہ ہیں۔
اس کے مضامین میں ایک باد شاہ(نام یاد نہیں آرہا) کا ذکر ملتا ہے۔جو جب دنیاوی ثروت حاصل کر لیتا ہے تو تب اس پر دنیاوی بیحقیقتی کھلتی ہے تو دفعۃً ترک دنیا کرکے تمنائے آرام ابدی میں مگن ہو گیا اور بہت پہونچا ہوا “پیر و مرشد” ہو جاتا ہے۔
اسلام میں تصوف کا مادہ تمام تر زرد تشتیوں سے پہونچا ،جب اہل عرب اہل فارس سے میل جول کرنے لگے تو ناچار فارسیوں کے مذہبی خیالات ان کے دلوں میں اثر کرنے لگے
(“یہ اثر ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ہم جیسے غیرمسلم معاشرے میں رہنے والے غیر مسلموں کے اعلی اخلاقیات علمی ترقی انسانی و سماجی و معاشرتی حقوق یا معاشرے کی رنگینی دیکھ کرانہی کا گن گانا شروع ہو جاتے ہیں آسان الفاظ میں خربوزہ ،خربوزے کو دیکھ رنگ پکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ً)
اسلامیوں کا عقیدہ توحید تو زوال پذیر نا ہو سکا ،مگر انداز تو حید ضرور بدل گیا۔
بہت سے “جدید خیالات از قسم وحدت و جود وحدت شہود وہمہ اوست ” وغیرہ پیدا ہوتے گئے۔شعرا نے اپنی طباعیوں سے ان عقائد کو بہت زور بخشا حتی کہ ہزاروں منظوم کتابیں اسی رنگ کی احاطہ تصنیف میں در آئیں۔
پہلا شاعر جس نے تصوف کے اصول منظوم کئے فردوسی کا ہم عصر ابو سعید بن ابو الخیر مہانی تھا۔اس کے بعد ناصر بن خسرو نے مثنوی موسوم بہ روشنائی نامہ تصوف میں لکھی۔
پھر مشہور علی بن عثمان نے کشف المجوب لکھی، عمر خیام نے سینکڑوں رباعیاں لکھیں۔
اس کے بعد ٹرین پٹڑی پہ چڑھ گئی تو اسلام کے “اندر” سے بھی تصوف ثابت ہونا شروع ہو گیا۔
اولیا اللہ کے عزت کرنے چاھئے اور ان سے دنیا و آخرت کی رہنمائی حاصل کرنا افضل ہے۔
کالے حبشی غلام تھے۔۔معاشرے کے کمزور ترین شخص۔۔۔جب پیٹھ پر کوڑے مارے جاتے تھے تو ۔۔نعرہ مشکل کشا زبان سے نہیں نکلتا تھا، مدد یا مولا علی بھی نہیں نکلتا تھا۔
سب سےبڑی مدد جو ہو سکتی تھی۔ “موجود ” ہستی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدد یا رسول اللہ کا نعرہ نہیں نکلتا تھا۔۔
اللہ ایک ہے ۔ اللہ ایک ہے۔۔کا ورد تھا۔ اس نعرے میں ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔
آج اس ترقی یافتہ دنیا میں ہم مسلمانوں کے نعرہ وحدانیت میں اتنی ملاوٹ آگئی ہے کہ ہم جتنے زیادہ اخلاقی دیوالیہ کا شکار ہوتے ہیں اتنے ہی دنیاوی ذلت میں گرا دیئے جاتے ہیں۔
جاپان میں نوے کی دھائی میں ریلوے اور سب وے کی سٹیشنز پر ایک پوسٹر لگا ہوتا تھا جس میں ایک باریش شخص یوگا کا آسن لگائے بیٹھا ہوتا تھا۔۔پوسٹر کی تحریر میں لکھا ہوتا تھا۔ کہ یہ پیر صاحب زمین سے ایک یا دو فٹ کی بلندی پہ آسن لگائے بیٹھے ہیں۔ موذی امراض کے علاج کا بھی دعوہ کرتے تھے۔بعد کی معلومات مطابق یہ پیر صاحب اوم نامی مذہب کے بانی ہیں،اور انہوں نے انڈیا میں پہاڑوں وغیرہ پہ جا کر ریاضت کی اور نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی۔اس اوم مذہب کا مقدس لباس کرتا پاجامہ ہے۔
جب ان پیر صاحب کو یقین ہو گیا کہ وہ بہت “پہونچے ” ہوئے ہیں تو انہوں فدائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دہشت قائم کرنے کیلئے سب وے ٹرین میں سرین گیس کے غبارے اپنے مریدوں کے ہاتھوں پھوڑ ے جس سے کافی لوگ ھلاک اور تاحیات متاثر ہوئے۔اپنے مخالفین کو غائب کرنے کی کرامات کا مظاہرہ کیا۔یعنی اپنےمذہب کی دہشت پیدا کردی۔
آج کل جاپان میں ایک پاکستان کے بقول مریداں بین اقوامی شہرت یافتہ پیر صاحب تشریف لائے ہیں اور قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ کے ذریعے موذی امراض کا علاج فرما رہے ہیں۔
آج کل کے پیر صاحب بھی پاکستان کے غریب غربا کا علاج “مفت” میں کرنے میں کراہت محسوس کرتے ہیں یا پھر پاکستان میں کوئی “موذی امراض” کا شکار ہی نہیں ہوتا کہ یہ پیر صاحب امیر ممالک میں مقیم گرتے پڑتے موئے مکے مالدار تارکین وطن کے علاج معالجے کیلئے “دورے” فرماتے ہیں۔
اسطرح کے ہائی ٹیکنالوجی کے شعبدے باز ایک چھوڑ سینکڑوں جاپانی پیر صاحب یہاں جاپان میں پائے جاتے ہیں اگر اسی طرح کا علاج کروانا ہے تو میں رابطہ کروا سکتا ہوں۔۔اور مجھے ان جاپانی پیر صاحبان کی کرامات پر کوئی افسوس یا دکھ بھی نہیں کہ یہ “اسلامی پیر صاحبان ” نہیں ہیں۔
شلوار قمیض اور سر پہ ٹوپی پہن کر اسلام کے نام پر کی جانے والی قبیح شبعدہ بازیوں کا ہمیں دکھ ہوتا ہے۔اور ہم اس پر کم ازکم احتجاج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
اجمیر شریف کے پیران پیر صاحب کے متعلق بتایا جاتا ہے ،کہ انہوں نےلوگوں کو مسلمان کرنے کیلئے کرامت دکھائی تھی کہ مٹکے میں دریا کے سارے پانی کو بند کر دیا تھا۔جب سب “مان” گئے تو مٹکے کے پانی کو دریا میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہمارے پاکستان کے راوی میں ریت اڑ رہی ہے، ایسے “پہونچے” ہوئے پیر صاحبان سے گذارش ہے ایک عدد مٹکا ادھر بھی انڈیل دیں،کہ بے بس و مجبور دکھی انسانیت کو پینے کیلئے پانی ہی میسر آجائے گا۔
اورکچھ نہیں تو ٹھنڈی ہوائیں ہی چلا دیں کہ معصوم بچے سکون کی نیند ہی سو لیں۔۔۔اور کچھ نہیں تو “بتیاں” جلا دیں۔
ساری پاکستانی عوام “حق قلندر مست قلندر” کا نعرہ لگاتی آپ کے پیچھے گسیٹیاں کر رہی ہوگی۔
پیر صاحب “موذی امراض ” کا علاج کرتے ہوئے
http://en.wikipedia.org/wiki/Aum_Shinrikyo
1 comment for “تواہم پرستی کے خلاف ایک بلاگ تحریر، تحریر یاسر خواہ مخواہ جاپانی”