انعام الحق صاحب اور منہاج القران کی خدمات قابلِ ستائش ہیں ۔لیکن جو مسجد میں ہوا وہ قابلِ مذمت ہی
تحریر ۔ راشد صمد خان
امانت گوندل مرحوم تو اس دنیا سے چلے گئے اللہ ان کی مغفرت کرے لیکن جو کچھ ان کی میت حاصل کرنے کے لئے ہوا یہ کمیونٹی کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں کسی بھی طرح ان معاملات کو الجھانا چاہئیے بلکہ جو کچھ ہوا اس سے سبق سیکھنا چاہئیے اور آئندہ ایسے معاملے مزید بہتر طریقے سے حل کرنے پر سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہے ۔
جاپان میں مساجد کا تقدس پامال ہوتاآیا ہے ۔ہر مسجد کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور مسجد کا حسن بھی اس وقت بڑھتا ہے جب وہاں کی انتظامیہ اپنی پوری محنت سے مذہبی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد کی خدمت کرتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکز منہاج القران کی بڑی کاوشیں ہیں ۔میں ہمیشہ انعام الحق صاحب کی مثال دیتا ہوں کہ جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے وہ مسجد کے باہر جوتوں کو ترتیب دیتے ہوئے ہی ملتے ہیں ۔
لیکن اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے جب لوگ ادھورا پروگرام چھوڑ کر یہ کہتے ملتے ہیں کہ ۲ گھنٹے یا ۳ گھنٹے نہیں بیٹھا جاتا کچھ زیادہ ہی کھینچ دیا اور یا کسی کو حضرت رحمتہ اللہ علہ کا خطاب دینے پرا عتراض ۔ خیر بات مختصر ہم ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں جس سے لوگ انگلیاں اُٹھائیں ؟ قرآن خوانی والے روز جو گند اور کیچڑ کمیونٹی میڈیا یا سیاسی پارٹیوں اور غیر حاضر معزز افراد پر اچھالا گیا اس کا قصور وار کسے ٹہرایا جائی؟
اس شخص کو جس نے مسجد کے ممبر پر کھڑے ہو کر یہ سب کچھ کیا یا ان منتظمین کو جنھوں نے دعوت دی اور کھڑے ہو کر تماشہ دیکھا اور اس شخص کو روکنے کی کوشش تک نہیں کی ۔
میرا سوال ہے کہ کیا مساجد کی ممبر ایسے کاموں کیلئے ہیں اور آئندہ کوئی بھی کھڑا ہو کر اس طرح کی حرکات کرنا شروع کر دے ؟
ہمارے ہاں ایسے کئی لوگ ہیں جو خدمتِ خلق کر رہے ہیں اور ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے نہ کہ ان پر شک کر کے ان پر تہمتیں لگائیں اور ان کی ٹانگیں کھنچنا شروع کر دیں۔ کسی بھی قسم کی کھینچاتانی کسی کے لئے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے جو کہ اس دفعہ مرکزمنہاج القران میں ہوا ۔
جو پیغام یعقوب صاحب دینا چاہتے تھے وہ مسجد کے ممبر پر کھڑے ہوئے بغیر بھی دیا جا سکتا تھا اور اسے اور بہتر انداز میں لوگوں تک پہنچایا جا سکتا تھا ۔مساجد میں انتشار انہ رویہ کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں۔ منہاج القران جیسی منظم اور متحرک تنظیم سے اس طرح کی غلطی کی امید تو ہر گز نہیں تھی اور میرے خیال میں منہاج القران کو تمام ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پوری کمیونٹی سے معذرت کرنی چاہئیے
اور آئندہ اس طرح کے واقعات سے دور رہنا چاہئیے ۔ہم سب کی کوشش ہونی چاہئیے کہ مساجد کو عبادات کے لئے مختص رکھا جائی۔ اور مسجد کے ممبر سے دین کی تبلیغ کی بات ہی ہونی چائیں ۔
سیاست اور دنیاوی کاموں کیلئے اور کئی جگہ ہیں جواستعمال کی جا سکتی ہیںمیرا ذاتی طور پر محترم شکیل ثانی محترم انعام الحق صاحب یا منہاج القران سے کوئی اختلاف نہیں ہے میں صرف گوندل مرحوم کی قرآن خوانی کے دن نا خوشگوار واقع کی پر زور مذمت کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا جسے کچھ رنگیلے غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں
1 comment for “لیکن جو مسجد میں ہوا وہ قابلِ مذمت ہے تحریر ۔ راشد صمد خان”