ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے »دانشکدہ «۔تحریر: ظہیر دانش
zدوہزار تیرہ کے پہلے مہینے کی اکتیس تاریخ کوجاپان پریس کلب ٹوکیو میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ تقریبات تو بیشمار و بے حساب ہوتی ہی رہتی ہیں جس میں مذہبی ،سیاسی وسماجی تقریبات بھی شامل ہیں ۔ لیکن یہ تقریب ایک خا ص الخاص تقریب تھی جس کا مقصد الجزائر میں بیگناہ مارے جانے والے جاپانیوں کے اہلِ خانہ اور جاپانی عوام سے تعزیت اور اظہار ِ یکجہتی تھا ۔اِس تقریب میں اُمید کیمطابق معمول سے بھی کم لوگوں نے شرکت کر کے اِس تقریب کو اور بھی یاد گار بنا دیا ۔ اگریہ کہا جائے کہ یہ جاپان میں مقیم پاکستانیوںکی طرف سے اپنے جاپانی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے نمائندہ تقریب تھی تو میری ناقص رائے کیمطابق یہ اُن مسلمان بھائیوں سے زیادتی ہو گی جو اِس قسم کی فضولیات اور وہ بھی جو غیر مسلموں سے متعلق ہوں یا غیر مسلموں کی مو ت میت کا معاملہ ہو وہ اس کو اتنی اہمیت نہیںدیتے ہیں اور نا ہی ان چکروں میں پڑ نا چاہتے ہیں۔ اس لئے یہ چند منچلوں کی طرف سے خود ساختہ اظہارِ یکجہتی ہی کہا جائے تو بہتر ہے ۔ میری نظر میں یہ تقریب انتہائی ضروری تقریب تھی۔ اپنے محسن جاپانی بھائیوں کیلئے چند لوگوں کا اکھٹا ہوکر جاپانی پریس کے چند لوگوں کے ساتھ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرلینا، الجزائر میں مرنے والے جاپانی بھائیوں کے لوا حقین کے زخموں پر مرہم تو نہیں رکھ سکتا لیکن اپنی اس چھوٹی چھوٹی سی ضروری حرکات سے اپنے آپ کو ضرور مطمئن کر سکتا ہی۔ الجزائر میں ہلاک ہونیوالے جاپانیوں کے اہلِ خانہ وجاپانی عوام سے اظہارِ تعزیت کیلئے تقریب میں شریک رانا ابرار حسین ،خالد فریدی ،کمال احمد رضوی، راشد صمدخان ،چوہدی رزاق اورشاہد مجید جیسی جلیل القدر سیاسی و سماجی شخصیات نے جس طرح اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا اُس نے وہاں موجود مقامی جاپانی لوگوں کو بیحد متا ثر کیا۔ محفل میں شریک ایک جاپانی خاتون تو آبدیدہ ہوگئیں۔ زبیر بھائی نے جس طرح اس مختصرو پر وقار تقریب کی کمپیئرنگ کی اور دوران تقریب جس خوبصورت الفاظ میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ،تقریب کے نظم و ضبط کو آخر تک قائم رکھا وہ بھی اُتناہی قابل ِ دید تھا۔ اظہار یکجہتی کا یہ پروگرام منعقد کرنے والے ملک حبیب الرحمن صا حب جو کہ اپنی ذات میں خود ایک انجمن ہیںبلکہ آپ اخبار کے منتظم، سیا سی و سماجی حوالے سے ایک مضبوط شخصیت ہیں۔ ملک حبیب الرحمن صا حب کا اپنے بیگناہ جاپانی بھائیوں کے بہیمانہ قتل پر اُن کے اہلِ خانہ سے اظہار ہمدردی کرنا اور اس کیلئے ایک باقاعدہ تقریب منعقد کرنا ایک ایسا قابلِ ستائش عمل ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہی۔ اس تقریب میں ایک سماجی رضا کار جاپانی تنظیم ’’ ساکوراوہیل چئیر پروجیکٹ ‘‘کے نمائندہ ارکان بھی موجود تھی۔ اُنہوں نے اپنی پاکستان میں کیگئی سماجی خدمات کا ذکر کیا ،الفاظوں کی ہیرا پھیری کے بادشاہوں کے سامنے شاید اُن الفاظ کی کچھ اہمیت نا ہولیکن جب اُنہوں نے پروجیکٹر کی مدد سے اسکرین پر اپنی خدمات دکھائیں تو ہر شخص کو سانپ سونگ گیا۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ جاپان کی یہ گمنام تنظیم کسی نمودو نمائش کے بغیر ، کسی چیخ وپکار اور لنگر کے بغیر، ریستورانوں میں پاکستانیوں کو کھانا کھلانے کے بہانے لمبی لمبی تقریریں سُنانے اور فوٹو سیشن سے قطع نظر بے سہارا پاکستانیوں کی مدد کررہی ہی۔اس تنظیم کے سربراہ سائتو صاحب اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات بتارہے تھے ۔میں بھی اُن کے کچھ مخصو ص الفا ظ کی وجہ سے دلچسپی لینے لگا اور وہ الفاظ تھے ’’PO ‘‘ یہ تنظیم جاپان میں این پی او کے نام سے رجسٹر ڈ ہے اور پاکستان میں پولیو سے متاثر افراد یا معذور افراد کیلئے پرانی وہیل چیئر رضاکارانہ طور پر جمع کر کے یا انتہائی سستی قیمت پر خرید کر اُن کی مرمّت کر کے استعمال کے قابل بنانے کے بعد معذور افراد کو فراہم کرتی ہی۔ اس کیلئے اُن کا باقاعدہ ایک نیٹ ورک ہے جو ان تمام فلاحی معاملات کو چلاتا ہی۔ ساکوراوہیل چئیر پروجیکٹ نے اس فلاحی کام کیلئے پاکستان میں ایک معذور شخص کو اِس تمام فلاحی کام کا انچارج بنایا بلکہ اُنہیں وہیل چیئر کی مرمت کا کام سکھانے کیلئے جاپان بلوا کر اُنہیں سیکنڈ ہینڈ یعنی استعمال شُدہ وہیل چیئرز کی مرمت کی طریقے سکھادئیی۔ اب وہ یہ ہنر پاکستان میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو سکھا رہے ہیں تاکہ اپنی مدد آپ کے قابل ہوسکیں۔سائتوصاحب کو اس کام کیلئے بہت سی مشکلات کاسامنا بھی کرنا پڑا جس میں وہیل چیئر ز کا جاپان سے پاکستان منتقل کرنے کیلئے قانونی مشکلات بھی بہت بڑا مسئلہ تھیںجبکہ حکومت پاکستان اس مسئلے پر کوئی خا ص توجہ بھی نہیں دے رہی تھی۔ لیکن اس کے با وجود عزم و استقلال کے جاپانی پیکروں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے مشن میں نا صرف ڈٹے رہے بلکہ پر امن احتجاج بھی کر تے رہی۔ بالآخر اُن کی یہ مخلصانہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور اُس ہی دن جب ہم سب مل کر جاپانی بھائیوں کے بہیمانہ قتل پر اُن کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کررہے تھے تو ساکورا نامی اِس این پی او تنظیم نے اپنے پرو جیکٹر پر یہ تازہ خبر بھی دکھائی کہ آج یعنی اکتیس جنوری دو ہزار تیرہ کو حکومت پاکستان نے ساکورا نامی تنظیم اور اس کے ہمدر د کارکنان و متفقین کے جوش و جذبہ سے متا ثر ہو کر پاکستان میں معذور افراد کیلئے رضا کارانہ بھیجی جانے والے وہیل چیئرز کی جاپان سمیت دنیا بھر سے لانے کی اجازت دے دی ہے اور اسے قانونی شکل دیدی گئی ہی۔جاپان سے وہیل چیئرز کو جمع کرنے کے بعد اس کو کنٹینر میں پاکستان بھجوانے کا انتظام سماجی، سیاسی و صحافی و صوفی شخصیت محترم حبیب الرحمن صاحب نے کیا ہی۔ جاپان میں و یسے تو شائد کئی تنظیمیں این پی او کے نام سے کام کرر ہی ہو نگی لیکن آج ہم صرف دو این پی او تنظیموں کی بات کرتے ہیں ۔نمبر ایک ساکورا وہیل چئیر پروجیکٹ این پی او جو کہ جاپانی چلا رہے ہیں اورنمبر دو این پی او جو کہ مسلمان چلارہے ہیں ۔ اس کا فرق او ر جذبہ ملاحظہ فرمائیی، نشان ہم لگا رہے ہیں ،فیصلہ آپ ہی کریں۔ یہ جو جاپانی این پی اوچلا رہے ہیں اِس کے تمام عہدیدار وکارکنان ،یہود و نصاری مسلم غیر مسلم ،شیعہ سنی حسینیت یزیدیت ،فرعونیت ،موسیویت، مولانا ، علامہ اورشیخ کے تمام روایتی بینر وں، ہتھکنڈوں سے مبرا صرف کام اور کام پر نظر رکھ کر انتہائی منظم انداز میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اپنی ایک ایک چیز کو کھلم کھلا انتہائی انکساری سے تمام ضروری معلومات کے ساتھ بتا رہے ہیں۔ اور تمام آمد و رفت کی پریشانیوں وتکالیف کے باوجود پوری تندہی سے اس کار خیر کو خندہ پیشانی سے انجام دے رہے ہیں۔ جو کچھ خدمتِ خلق کررہے وہ واضح طور پر نظر بھی آرہا ہے اور اسکے نتائج بھی سامنے ہیں ۔اسکے ڈائریکٹر کو پاکستان سے نہیں منگوایا گیا ، نہ وہ چیخم دھاڑ کرتا ہے ، نہ طرح طرح کی پوشاکیں بدلتا ہی، نہ تاریخی خطاب کرنیکا دعویٰ کرتا ہے لیکن پاکستان کی قومی زبان نہ جاننے کے باوجود پاکستان جاکر وہاں پاکستانیوں کی مدد کررہا ہی۔
دوسری طرف جاپان میں اِسی طرح کی ایک اور تنظیم ہے جو این پی او کے نام سے کام کر رہی ہے ۔ اتفاقاً اس کا ایک پایہ تخت اِباراکی پریفیکچر کے باندو شہر میں بھی ہی۔ یہ دو نمبر این پی او اعلانات کیمطابق مکمل طور پر مسلمانوں کی دسترس میں ہی، اسپر چاروں طرف سے رحمتوں کی بارش ہے ، پیسے یا چندے کی ریل پیل ہے ۔تمام لفاظی چمتکاری کے گھن چکر کے بعد اِس مسلم این پی او کا مدد کرنے کا طریقۂ کار یہ ہے کہ یہ لفافے میں نامعلوم رقم کو اپنے بیمارمسلمان بھائی کی مدد کر تے ہوئے نمودو نمائش ودکھاوے کے انداز میں اس طرح دیتے ہیں کئی لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں کو سہار ا دے رہے ہوتے ہیں جیساکہ یہ نو ٹو ں کی الماری عنایت فرما رہے ہوں۔ کبھی یہ اباراکی کے اِسی شہر کے وار ڈ آفس و غیرہ میں کسی جاپانی افسر کوتسونامی وزلزلہ زدگان کی مدد کے نام پر روایتی مخصو س طریقہ سے رقم دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ رقم اُس وقت دے رہے ہوتے ہیں جب کچھ تنظیمی و غیر تنظیمی پاکستانی اپنی اپنی بساط کے مطابق زلزلہ و تسونامی سے متاثر ہونے والے جاپانی بھائیوں کی متا ثرہ علاقوں میں پہنچ کر مدد کر رہے تھی، اُسوقت باندو شہر میں اس این پی او کے جیالے چند ہ کی معمولی رقم دکھاوا کے انداز میں دے کر فو ٹو سیشن کررہے تھی۔ ’’ سا کو را وہیل چئیرز ‘‘ نامی تنظیم پولیو یا کسی اور وجہ سے معذور ہونے والے پاکستانیوں کے آنسو پونچ کر اُن کو اِس قابل بنوانے میں اپنا کردار ادا کر رہی تھی کہ وہ ساکورا این پی او تنظیم کے ذریعے فراہم کیگئی وہیل چیئر پراپنے روز مرہ کے معمولات سے لے کر اپنی دیرینہ خواہش کر کٹ کا میچ کھیلتے ہیں۔ ان کے عزیز رشتہ دار فرطِ جذبات سے آنکھوں میں تشکرانہ آنسو لئے ان غیر مسلم جاپانی بھائیوں کیلئے دعائیں کر رہے ہیں ۔ ایک ہماری مسلم حراست میں این پی او اپنے زلزلہ و تسونامی سے متاثرہ جاپانی و پاکستانی بھائیوں کا حق مار کر چالیس لاکھ روپے کا چندہ جمع کر کے نجانے کس قانون کے تحت اور کِس ذریعے سے پاکستان میں ایک سیاسی دھرنے کیلئے بھیج رہی ہو تی ہی۔ بلکہ اِسی ہٹ دھرمی، خفیہ انداز میںنہ جانے کتنا چندہ دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے ۔ جاپانی ساکورا این پی اوتنظیم نہ کسی پنڈت کے گُن گارہی ہے ، نہ کسی علامہ کو جنت کا ضمانتی بتارہی ہی، نہ ہی کوئی رنگ برنگی ٹوپی ہے اور نہ کوئی بھڑکتا لباس۔این پی او ساکُورا وہیل چئیر اپنی ممبر شپ یا اپنے ممبر سے سالانہ بیس ہزار ین کا چندہ وصول کرتی ہے یا کرنا چاہتی ہے جس کی باقاعدہ وہ رسید بھی دیتے ہیں او ر اس کے اس لین دین کی جب جو چاہے پوچھ گچھ بھی کر سکتا ہی۔ دوسری طرف مسلم حراست کی این پی او جس کا دفتر مسجد ہے جہاں جب چاہو چندہ کی آواز لگاؤ نا کوئی رسید نا حساب کتاب ۔ یہ مسلم حراستی این پی او یہاں جاپان میں ایک بہت بڑا پروجیکٹ تیار کر رہی ہے جس کی تعمیرات پر تقریباً اٹھارہ کرو ڑ ین کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس کیلئے باقاعدہ ایک ڈائریکٹر بھی پاکستان سے درآمد کیا گیا ہے جو بتایا گیا ہے کہ اس تمام پر جیکٹ کی رکھوالی سے لے کر دیکھ بھال تک کرے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام کاروائی ایک مسجد کے اندر ،مرکز کہلائے جانیوالے ادارے میں ہو رہی ہے جو اکثر اپنی اخباری خبر گیری میں دن مہینے یا ماحول کے مطابق نام کی تبدیلی کر تا رہتا ہ جیسے کبھی این پی او، کبھی مسجد ،کبھی ادارہ ،کبھی مرکز کبھی اینٹیگریشن وغیرہ وغیرہ ۔ قانونی یا غیر قانونی چندہ جس کی مالیت بعض لوگوں کیمطابق ویسے تو زیادہ ہے لیکن فی الحال ایک پاکستانی اخبار کی خبر کے مطابق چالیس لاکھ روپے یعنی جاپانی تقریباً چار سو مان(چار ملین ین) کی رقم پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کیلئے بھیجی گئی ۔
اس مسئلے پر پوری کمیونٹی میں چہ میگوئیاں جاری ہیں بلکہ کچھ لوگ تو یہ زور بھی دے رہے ہیں کہ جاپانی انتظامیہ کو ایسی اطلاعات کا سخت نوٹس لینا چاہئیے ۔تعزیتی تقریب کے اختتام پر مدیرِ اُردونیٹ نے بتایا کہ اُنہوں نے اخباری اطلاعات کے بارے میں مذہبی این پی او کے ڈائریکٹر سے معلومات لینا چاہیں تو موصوف ڈائریکٹر نے جواب دیا کہ اُنہیں معلوم نہیں کہ ٹوٹل کتنی رقم پاکستان گئی ہی۔ڈائریکٹر موصوف نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس مذہبی تنظیم کی صدارت ایک سال باندو میں ہوتی ہے اور ایک سال ناگویا کے پاس ہوتی ہے ۔اس سال صدارت ناگویا میں کسی صا حب کے سر پر ہے اور وہ اپنے تقریبا ً ایک یا ڈیڑھ درجن ساتھیوں کے ساتھ بمع چندہ پاکستان دھرنے کی زیارت پر گئے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے سیکریٹری اطلاعات سے معلوم کرلیں لیکن جب اُنکے بتائے گئے سیکریٹری اطلاعات سے انہی معلومات کے بارے میں پوچھا تو اُسکا کہنا تھا کہ چار ملین سے کچھ زیادہ رقم پاکستان گئی ہے لیکن ابھی لوگ پاکستان گئے ہوئے ہیں وہ آئینگے تو پوری رقم کے بارے میں بتایا جاسکیگا ۔یہ تحریر مکمل ہونے تک اُن میں سے کسی ایک بھی ایسے نفوس کی انٹری جاپان میں نہیں ہوئی ہے جو چندے کے بارے میں ضروری معلومات دے سکے ، معلومات پوچھنے والے کو ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی کہ پاکستان سے لوگ واپس آگئے یا نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ چندہ سے اٹھارہ کروڑ ین سے تعمیر ہونے والے پرو جیکٹ کے ڈائریکٹر جو کہ خیر سے علامہ بھی ہیں اور اسی باندوشہر کے نان پروفٹ آرگنائزیشن کی زمین پر قائم کی گئی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔اُنہیں شاید اعلیٰ خدمات یا فنی مہارت کی وجہ سے پر و جیکٹ کی نگرانی کیلئے بلوایا گیا ہے ۔ جن کی فنی صلاحیت و احساس ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ انہیں اپنی زیرِ نگرانی اپنی امامت میں اپنی مسجد میں جمع کئے گئے چندے کاحساب کتاب نہیں معلوم بلکہ ہمیں ( عوام کو) تو زبیر بھائی کے ٹیلیفون کرنے تک نہیں معلوم تھا کہ اس این پی او کا ہر سال صدر تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ کون اِس کا خزانچی ہی؟ کون اِس سال اِس کا انفارمیشن سیکریٹری ہی؟ بوجہ سلمانی ٹوپی معلومات ندارد۔ جاپان میں مقیم پاکستانی یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں دھرنے اور سیاسی سرگرمیوں کیلئے چندہ بھیجا گیا ہے تو اُسکی پوری تفصیل عوام کو بتائی جائی۔یہ بھی بتایا جائے کہ مذہب کے نام پر قائم تنظیم یا این پی او کا پیسہ پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کیلئے کیوں بھیجا جارہا ہے ؟ کس طریقے سے بھیجا جارہا ہے ؟جب لوگوں سے چندہ لیا جاتا ہے تو اُنہیں یہ بھی بتایا جائے کہ پیسے کو کہاں خرچ کیا گیا ؟کیا جاپانی قانون کسی این پی او کو اور وہ بھی ایسی این پی او جو مذہب کے نام پر کام کررہی ہو ، اُسے یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جاپان یا جاپان سے باہر چندہ کی رقم کو سیاسی مقاصد میں استعمال کیلئے بھیجے ؟اگر جاپانی قانون یہ اجازت دیتا ہے تو عوام الناس کو بھی یہ قانون بتادیا جائے اور اگر قانون یہ اجازت نہیں دیتا تو پھرمسجد میں یہ غیرقانونی کام کیوں ؟
(جاری ہے )
نوٹ :” سائیٹ کے انتظام کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
تحریر میں لکھی گئی باتوں کے دستاویزی ثبوتوں کے تقاضے کے لئے لکھاری ذمہ دار ہو گا۔